کوئٹہ: چرچ میں خودکش دھماکا، خواتین سمیت 9 افراد جاں بحق

کوئٹہ میں چرچ پر حملے کے بعد لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہے ہیں — فوٹو: اے پی
کوئٹہ میں چرچ پر حملے کے بعد لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہے ہیں — فوٹو: اے پی

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے زرغون روڑ میں واقع بیتھل میموریل میتھوڈسٹ چرچ میں خودکش دھماکے اور فائرنگ کے نتیجے میں 3 خواتین سمیت 9 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔

وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے حملے کی تصدیق کی اور بتایا کہ دھماکے کے بعد فائرنگ کی گئی جس میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق 4 دہشت گردوں نے چرچ پر حملہ کیا تھا، جن میں سے ایک کو سیکیورٹی اہلکاروں نے چرچ کے دروازے پر فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔

صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ دوسرے مسلح دہشت گرد نے خود کو چرچ کے دروازے پر دھماکا خیز مواد سے اڑا لیا جبکہ دیگر دو حملہ آور سیکیورٹی اہلکاروں کو دیکھ کر فرار ہوگئے۔

انھوں نے بتایا کہ فرار ہونے والے دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے سیکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن کا آغاز کردیا۔

مزید پڑھیں: کوئٹہ میں دھماکا، 6 افراد جاں بحق

واقعے میں زخمی یا ہلاک ہونے والے افراد کے حوالے سے وزیر داخلہ بلوچستان کا کہنا تھا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق 4 افراد واقعے میں ہلاک ہوئے جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔

انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ فوری طور پر زخمیوں کی حتمی تعداد کے بارے میں نہیں بتا سکتے۔

وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کوئٹہ میں چرچ پر ہونے والے حملے کے حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں اس حملے اور پولیس آپریشن کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔

سیکیورٹی حکام کے مطابق بم دھماکا کوئٹہ میں زرغون روڈ کے انتہائی حساس علاقے امداد چوک پر قائم ایک چرچ میں ہوا جس کے بعد مسلح دہشت گردوں نے فائرنگ بھی کی اور واقعے میں متعدد افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔

سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ دھماکے کے وقت چرچ میں دعائیہ تقریب جاری تھی اور اس موقع پر لوگوں کی بڑی تعداد یہاں موجود تھی۔

ریسکیو ذرائع کے مطابق زخمیوں کو فوری طور پر کوئٹہ سول ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم جائے وقوع پر سیکیورٹی اہلکاروں اور مسلح دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے باعث امدادی سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا رہا۔

سرکاری حکام کے مطابق دھماکے کے بعد کوئٹہ بھر کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔

سیکیورٹی اہلکاروں نے جائے وقوع پر پہنچ کر علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور غیر متعلقہ افراد کو جائے وقوع کی جانب جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

حکام کے مطابق متاثرہ چرچ پر پہلے بھی ایک مرتبہ دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا جس کے بعد اس کی سیکیورٹی انتہائی سخت کردی گئی تھی جو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن اور اہم سرکاری عمارتیں کے قریب واقع ہے۔

سرکاری حکام کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں کو ہر ممکنہ اقدامات اٹھانے کی ہدایت کردی گئی۔

سیکیورٹی اہلکار بچوں کو محفوظ مقام کی جانب منتقل کرتے ہوئے—فوٹو: اے ایف پی.
سیکیورٹی اہلکار بچوں کو محفوظ مقام کی جانب منتقل کرتے ہوئے—فوٹو: اے ایف پی.

کوئٹہ سول ہسپتال میں 8 لاشیں لائی گئیں جن میں 3 لاشیں خواتین کی بھی تھی، سول ہسپتال کی انتظامیہ کے مطابق یہاں ریسکیو رضاکاروں نے 20 زخمیوں کو منتقل کیا جس میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں جبکہ کچھ دیر بعد سول ہسپتال کوئٹہ کے ترجمان نے بتایا کہ چرچ دھماکے کا ایک اور متاثرہ شخص زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگیا۔

بعد ازاں آئی جی بلوچستان معظم انصاری نے جائے وقوع پر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ایک حملہ آور نے چرچ کے دروازے پر خود کو اڑایا جبکہ انہوں نے تسلیم کیا کہ دہشت گرد چرچ کی مرکزی عمارت میں پہنچ جاتے تو نقصان اس سے کئی زیادہ ہوتا۔

انہوں ںے کہا کہ دھماکے کے وقت چرچ میں 400 افراد موجود تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ فرار ہونے والے دہشت گردوں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے جبکہ سیکیورٹی فورسز نے چرچ کو کلیئر قرار دے دیا۔

ادھر ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سول ڈیفنس نے بتایا کہ چرچ میں خود کش بمباروں کی جیکٹس میں 15، 15 کلو گرام اعلیٰ کوالٹی کا دھماکا خیز مواد موجود تھا۔

انہوں نے بتایا کہ دوسرے حملہ آور کی خود کش جیکٹ کو ناکارہ بنادیا گیا، جسے وہ اڑانے میں ناکام رہا تھا۔

ڈی جی سول ڈیفنس نے بتایا کہ خودکش حملہ آوروں کی عمر 16 سے 20 سال کے درمیان تھیں جبکہ سول ڈیفنس کی بم ڈسپوزل ٹیم نے چرچ اور اطراف کے علاقے کو کلیئر کردیا۔

کوئٹہ کے سول لائن تھانے میں زرغورن روڈ پر واقع چرچ میں ہونے والے حملے کا مقدمہ درج کیا گیا۔

‏ایس ایچ اوسول لائن کی مدعیت میں نامعلوم دہشت گردوں کےخلاف درج مقدمے میں قتل، اقدام قتل، ایکسپلوزیوایکٹ،انسداددہشت گردی سمیت دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔

صدر مملکت ممنون حسین نے ایک جاری بیان میں کوئٹہ میں چرچ پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے زخمیوں کو بہترین طبی امداد فراہم کی جائیں جبکہ اس عزم کا اعادہ کیا کہ دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

صدر مملکت نے چرچ حملے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر دکھ اور افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائیاں ہمارے عزم کو کمزر نہیں کرسکتیں۔

دوسری جانب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کوئٹہ میں چرچ پر حملے کو مذہبی انتشار پھیلانے کی کوشش قرار دیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ کے مطابق آرمی چیف کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے مسیحی برادری کی خوشیاں متاثر کرنے کی کوشش کی تاہم سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی قابل قدر ہے۔

اس کے علاوہ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں زرغون روڈ پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے کی مزمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بزدلانہ حملے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے عزم کو پست نہیں کر سکتے۔

علاوہ ازیں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے ایک جاری بیان میں کوئٹہ میں چرچ پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ چرچ کو نشانہ بنانے کا واقعہ بزدلانہ اور افسوسناک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک دشمن عناصر پاکستان میں بد امنی اور انتشار پھیلانا چاہتے ہیں، اسلام ہمیں دیگر مذہبی عبادت گاہوں کا احترام سکھاتا ہے۔

چرچ حملے کے بعد بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جارہا ہے—فوٹو: اے پی.
چرچ حملے کے بعد بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جارہا ہے—فوٹو: اے پی.

وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مذہبی آزادی اور تحفظ دینا پوری قوم کا فرض ہے، انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گردوں سے جنگ ان کے مکمل خاتمے تک جاری رہے گی۔

اس کے علاوہ اقلیت سے تعلق رکھنے والی رکن بلوچستان اسمبلی انیتا عرفان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کی بروقت کارروائی کی وجہ سے بڑا سانحہ ہونے سے بچ گیا۔

انیتا عرفان کا کہنا تھا کہ شہر میں اقلیتی برادری کو نشانہ بنانے کے حوالے سے موبائل پر میسجز گردش کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے حوصلے بلند ہیں اور دہشت گردی سے ہمیشہ مقابلہ کریں گے اور اس کے لیے اقلیتی برادری حکومت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

یاد رہے کہ کوئٹہ میں اقلیتوں، مذہبی رہنماؤں سمیت پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور پولیس کے سینیئر افسران کو قتل کیا جاچکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ میں ‘دہشت گردوں کا صفایا’ کرنے کیلئے آپریشن کا آغاز

اس سے قبل 25 نومبر 2017 کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں دھماکے میں 6 افراد جاں بحق جبکہ 19 زخمی ہوگئے تھے۔

کوئٹہ کے علاقے نواں کلی میں رواں ماہ 15 نومبر کو مسلح افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں قائم مقام ایس پی انوسٹی گیشن محمد الیاس، ان کی اہلیہ اور بیٹے سمیت خاندان کے چار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اس سے ایک ہفتہ قبل (9 نومبر کو) کوئٹہ کے حساس علاقے چمن روڈ پر قاتلانہ حملے میں ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) بلوچستان پولیس حامد شکیل جاں بحق ہوگئے تھے۔

خیال رہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں سیکیورٹی اداروں نے امن عامہ کی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، تاہم شرپسند عناصر تخریبی کارروائیوں کی کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں، پاک چین اقتصادی راہداری (سی-پیک) میں بلوچستان کے اہم کردار کی وجہ سے حکام دیگر ممالک کے خفیہ اداروں پر حالات خراب کرنے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔

اس حوالے سے صوبائی حکومت متعدد مرتبہ یہ دعویٰ کرچکی ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘، افغانستان کی خفیہ ایجنسی ’این ڈی ایس‘ کے ساتھ مل کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں