اسلام آباد: انتخابات کے قریب آتے ہی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ گیس یوٹیلٹی کمپنیز سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) اور سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) 5 کلو میٹر کی حدود میں نئے علاقوں کو گیس کی فراہمی کا خرچ برداشت کریں گی۔

اس بات کا فیصلہ 24 نومبر کو مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی) کے اجلاس میں کیا گیا تھا اور گیس کمپنیوں کو اجلاس کے فیصلے سے متعلق گیس کمپنیوں کو آگاہ کردیا گیا تھا۔

بلوچستان میں کم آبادی کے پیش نظر مشترکہ مفادات کونسل نے حکم دیا تھا کہ اگر 5 کلو میٹر کی حدود میں کوئی گاؤں نہیں ہو تو قریبی تحصیل یا ضلعی ہیڈکوارٹر کو گیس کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ اس حوالے سے جو بھی لاگت آئے گی وہ گیس فراہم کرنے والی کمپنیاں برداشت کریں گی، جو ٹیرف ایجسٹمنٹ کے ذریعے حاصل کیے جاسکیں گے تاہم یہ اطلاق صرف گیس پیدا کرنے والی فیلڈ کے 5 کلو میٹر کی حدود میں مقامی آبادی اور گاؤں پر ہوگا۔

مزید پڑھیں: ایل این جی ٹرمنل میں خرابی کے باعث ملک بھر میں گیس کی قلت

اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ہر صارف پر موجودہ لاگت کی شرح سندھ کے لیے 54 ہزار، پنجاب کے لیے ایک لاکھ 8 ہزار اور بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے لیے 2 لاکھ 70 ہزار ہر ایک کے لیے ہے، جس پر مہنگائی اور متعقلہ چیزوں کو دیکھتے ہوئے نظر ثانی کی جائے گی اور اس حوالے سے صوبائی حکومتیں اپنی تجاویز سی سی آئی کے آئند اجلاس میں جمع کرائیں گی۔

مشترکہ مفادات کونسل نے بتایا کہ بین الصوبائی رابطہ کمیٹی (آئی پی سی سی) اس بات پر راضی ہوئی تھی کہ گیس کی فراہمی پر آنے والے تمام اخراجات گیس یوٹیلٹی کمپنیز اور وفاقی پی ڈی ایس پی کی ذمہ داری ہیں، تاہم پائپ لائنز کی تنصیب اور حفاظت صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔

پیٹرولیم ڈویژن کا خیال تھا کہ اس معیار کے اوپر آنے والا خرچ صوبوں کے تحت گیس ڈویلپمنٹ سرچارج (جی ڈی ایس) کی مد میں وصول کیا جائے گا، جیسا کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کو جی ڈی ایس دیا گیا تھا۔

اس موقع پر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے اس معاملے کی جانب نقطہ اٹھایا کہ 5 کلو میٹر کی حدود ان کے صوبے کے لیے نا کافی ہے کیونکہ وہاں ہر گاؤں کے درمیان 50 کلو میٹر اندازاً فاصلہ ہے جبکہ مقامی آبادی بھی اتنی ہی دور ہے، ان کا کہنا تھا کہ کہ سوائے جھل مگسی 5 کلومیٹر کی حدود میں آتا ہے۔

اس نقطہ پر وزیر اعظم نے کہا کہ تلاش اور پیداوار ( ای اینڈ پی) کی کمپنیاں ایمانداری سے محصولات ادا کرتی ہیں اور وہ فراہمی کے لیے کوئی اضافی اخراجات نہیں اٹھائیں گی۔

پنجاب کے وزیر خزانہ نے تجویز دی کہ بلوچستان کے معاملے پر علیحدہ تبادلہ خیال کیا جائے گا جبکہ مشترکہ مفادات کونسل اس مسودے پر راضی ہوگئی۔

خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے مطالبہ کیا کہ اضافی اخراجات وفاقی حکومت کو برداشت کرنا چاہیے، جیسا اس سے قبل وزیر اعظم نے کیا تھا۔

وزیر اعظم نے زور دیا کہ ای اینڈ پی کمپنیاں اضافی اخراجاب کی پابند نہیں ہے، ساتھ ہی انہوں نے ایوان کو آگاہ کیا کہ وزیر اعظم کے اعلان کے حوالے سے کی گئی بات صرف ایک فیلڈ کے لیے تھی اور اسے مستقبل کی پالیسی سمجھا نہیں جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے پاس ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے پبلک سیکٹر ڈویلمپنٹ پروگرام ( پی ایس ڈی پی) میں مالیاتی گنجائش نہیں ہے۔

انہوں نے وزراء اعلیٰ کو مزید بتایا کہ گیس فراہم کرنے والی کمپنیز 600 روپے فی ایم ایم سی ایف ڈی کے ریٹ پر گیس خرید رہی ہیں اور صارف سے 100 روپے فی ایم ایم سی ایف ڈی لے رہی ہیں، جو وفاق کی ایک بڑی سبسڈی کا حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گیس اصلاحات گھریلو صارفین پر اثر انداز ہوں گی

اس سے قبل آئی پی سی سی نے تجویز دی تھی کی چاروں صوبوں میں صوبائی حکومتوں پر اضافی بوجھ کے بجائے گیس کی پیداواری فیلڈ 5 کلو میٹر کی حدود میں صارف کو قدرتی گیس کی فراہمی کے لیے معیار کی لاگت لاگو کریں۔


یہ خبر 22 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں