چکوال میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار ترقی، اصلاحات یا منشور پیش کرنے کے بجائے عوام سے مذہبی بنیادوں پر ووٹ مانگنے لگے ہیں۔

خیال رہے کہ چکوال کے حلقہ پی پی 20 میں ضمنی انتخاب 9 جنوری کو ہونے ہیں۔

واضح رہے کہ ضلع میں مسلم لیگ (ن) کی حمایتی جماعت تحریک خدام اہل سنت والجماعت (ٹی کے اے ایس ڈبلیو) چکوال میں دیوبند مکتبہ فکر کی نمائندگی کرتی ہے جس کے امور اس جماعت کے بانی مولانا قاضی مظہر حسین کے بیٹے قاضی ظہور الحسین اظہر دیکھ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: "مذہب یا فرقے کے نام پر ووٹ مانگنا جرم"

اس مذہبی جماعت کے ضلع کے مختلف مقامات پر اجلاس منعقد ہوتے رہتے ہیں جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں بطور مہمانِ خصوصی دعوت دی جاتی ہے جبکہ (ن) لیگ کے راجہ ظفر الحق بھی مذہبی جماعت کے مرکز مدنی مسجد کا اکثر دورہ کرتے رہتے ہیں۔

حلقے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سلطان حیدر علی خان کی کچھ روز قبل رکن قومی اسمبلی طاہر اقبال، رکن پنجاب اسمبلی ذوالفقار علی خان و دیگر کے ہمراہ مدنی مسجد آمد پر ٹی کے اے ایس ڈبلیو کی جانب سے ان کی حمایت کا اعلان کیا گیا تھا۔

مسجد میں عوام کے سامنے سلطان حیدر علی خان نے مذہبی جماعت کی جانب سے پیش کردہ حلف نامہ بھی پڑھا جس میں لکھا تھا 'اللہ کے فضل سے میں ایک مسلمان ہوں اور سنی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہوں، میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے پر ایمان رکھتا ہوں اور مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے ماننے والوں کو غیر مسلم تصور کرتا ہوں، علاوہ ازیں میں حالیہ ختم نبوت میں کے حوالے سے قوانین میں ترمیم کی مذمت کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ یہ جان بوجھ کر نہیں کی گئی تھی'۔

یہ بھی پڑھیں: مذہب سیاست میں

انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اگر آئندہ حکومت نے کبھی اسلام، ختم نبوت اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف قوانین سامنے آئے تو وہ حکومت چھوڑ دیں گے۔

مسجد میں اس اقرار نامے کے ساتھ 32 سالہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار کو ٹی کے ایس ڈبلیو کے رہنماؤں اور کارکنان کی حمایت حاصل ہوگئی۔

انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ کچھ احمدی ملک کی اہم عوامی نشستوں پر بیٹھے ہیں تاہم مجھے بہت فخر ہے کہ ہماری جماعت سے تعلق رکھنے والے رہنماء کیپٹن (ر) صفدر نے قومی اسمبلی کے فلور پر اس معاملے کو پہلی مرتبہ اٹھایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر مجھے اسمبلی میں جانے کا موقع ملا تو اس معاملے کو میں بھی اٹھاؤں گا'۔

انہوں نے مزید کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ قادیانیوں کو اہم عوامی نشستوں سے ہٹایا جائے بلکہ ان کی اس ملک میں پابندی بھی لگا دی جائے۔

خیال رہے کہ صرف مسلم لیگ (ن) ہی ضمنی انتخاب میں جیت کے لیے مذہب کو استعمال نہیں کر رہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بھی اپنے ووٹ بینک کو بڑھانے کے لیے مذہبی جذبات کا استعمال کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: ووٹ پر فتویٰ

پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے جان بوجھ کر متازع ترمیم کو پیش کیا تھا۔

پی ٹی آئی کے امیدوار راجہ طارق محمود افضل کا چک عمرہ گاؤں میں ہونے والے حالیہ اجلاس میں کہنا تھا کہ ووٹ دینے والے افراد کو سوچنا ہوگا کہ وہ ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہیں یا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما نے اعتراف کیا کہ مذہب کو الیکشن جیتنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے امیدوار کا پی ٹی آئی کی حمایت میں انتخاب سے دستبرداری کے بعد تحریک انصاف شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

واضح رہے کہ شیعہ برادری حلقے میں اب تک پیپلز پارٹی کے سابق ضلعی ناظم سردار غلام عباس کو انتخابات میں ووٹ دیتی آئی ہے جو اب مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے۔


یہ خبر 8 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں