واشنگٹن: افغانستان کے صدر اشرف غنی نے عندیہ دیا ہے کہ امریکی امداد کے بغیر افغان حکومت کا وجودہ باقی نہیں رہے گا اور افغان نیشنل آرمی کی بنیادیں 6 ماہ سے زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکیں گیں۔

غیر ملکی ٹیلی ویژن کے پروگرام سی بی ایس شو میں انٹرویو میں انہوں نے اقرار کیا کہ افغانستان کی حکومت مکمل طورپر واشنگٹن کے رحم و کرم پر ہے ۔

دوسری جانب افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جون نیکولسن نے کہا کہ امریکا کی نئی تزویزاتی حکمت عملی کے تحت پاکستان پر ‘تعاون’ کے لیے سخت دباؤ ڈالا جارہا ہے۔

یہ پڑھیں: افغان حکام کی استنبول میں طالبان سے ملاقات

انہوں نے مذکورہ پروگرام میں یقین کا اظہارکیا کہ افغانستان میں امریکا کا 16 واں برس ہے تاہم واشنگٹن طویل جنگ میں یقیناً کامیابی حاصل کرےگا۔

افغان صدر اشرف غنی نے ایک سوال کے جواب میں کہا ‘مختلف ماہرین کا نقطہ نظر بالکل ٹھیک ہے، حکومت ابھی اس قابل نہیں کہ اپنی فوج کو امریکی امداد کے بغیر 6 ماہ تک چلا سکیں، اگر امریکا امداد سے ہاتھ کھنیچ لیتا تو ہماری حکومت تیسرے روز ہی گر جائے گی’۔

اسی دوران ‘کابل حملے میں اور امریکا کی طویل جنگ ’ نامی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ امریکا نے افغانستان میں جنگی محاذ پر اپنے ڈھائی ہزار فوجیوں سمیت 10 کھرب ڈالر کی خطیر رقم کی قربانی دے چکا ہے لیکن افغانستان کا دارالحکومت تاحال نشانے پر ہے جبکہ جنگ کے اختتام کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا مزید عسکری مشیر افغانستان بھیجنے کا فیصلہ

اشرف غنی نے اقرار کیا کہ پشتون بیلٹ کے بڑے حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے اور کابل حکومت انہیں بے دخل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

افغان صدر نے بتایا کہ افغانستان کو 21 بین الااقوامی دہشت گرد تنظمیوں سے خطرہ ہے اور درجنوں خودکش حملہ آوار افغانستان بھیجے جارہے ہیں۔

اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ‘ادھر خودکش حملہ آور پیدا کرنے کی فیکٹری ہے اور ہم محاذ جنگ میں ہیں، طالبان نے عوام کو اتنا خوفزدہ کردیا ہے کہ وہ حکومت پر یقین کرنےپر آمادہ نہیں ہیں’۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں دہشت گردی غیرملکی فوجی مداخلت کے نتائج ہیں، ملیحہ لودھی

صحافی نے افغان صدر سے سوال کیا کہ ‘اگر آپ اپنے دارالحکومت کو محفوظ نہیں بنا سکتے تو کیسے پورے ملک کو بچا سکتے ہیں’، جس پر اشرف غنی نے کہا کہ ‘آپ مجھے بتائیں کیا نیوریارک پر حملہ روک سکتے ہیں؟ کیا آپ لندن کو حملوں سے بچا سکتے ہیں’۔

افغان صدر کی طرح جنرل نیکولسن نے اس امر پر امید کا اظہار کیا کہ نئی پالیسی کے تحت وہ جنگ کو اختتامی مرحلے میں دھکیل دیں گے اور اسی پالیسی سے جیت ممکن ہو گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ٹرمپ انتظامیہ نے 1 ہزار عسکری مشیروں کو افغانستان میں بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔


یہ خبر 18 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں