اسلام آباد: قصور میں 6 سالہ زینب کے قتل کے واقعے کے بعد صوبائی حکومت نے قصور میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرکے اس کی مدد سے شہر کی نگرانی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

بابر نواز کی صدارت میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب، ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب، ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او قصور شریک ہوئے۔

ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ ایمرجنسی کی بنیاد پر قصور میں کیمرے لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے قصور میں کیمرے لگانے سے متعلق منصوبے کی منظوری بھی دے دی گئی۔

ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ ابتدائی طور پر قصور میں 450 کیمرے لگائے جائیں گے اور ان کی مدد سے قصور کے مختلف علاقوں کی نگرانی کی جائے گی جبکہ علاقے میں موجود مشکوک لوگوں پر نظر بھی رکھی جائے گی۔

مزید پڑھیں: قصور:کمسن بچی کے مبینہ ریپ، قتل پر احتجاج، توڑ پھوڑ

اجلاس کے دوران حکام نے قصور میں قتل ہونے والے 6 سالہ زینب کے افسوسناک واقعے سے متعلق رپورٹ کمیٹی کے سامنے پیش کردی جبکہ اس واقعے کے حوالے سے بریفنگ بھی دی گئی۔

حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ ایک افسوس ناک واقعہ ہے اور متعلقہ حکام اس واقعے میں کچھ بھی چھپانا نہیں چاہتے۔

انہوں نے بتایا کہ رواں ماہ 4 جنوری کو ننھی زینب کو اغوا کیا گیا جبکہ اس کی لاش 9 جنوری کو گھر سے کچھ دور ہی ملی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ زینب کا قاتل ایک سلسلہ وار قتل کا حصہ ہے جبکہ قصور شہر میں پیش آنے والے 8 واقعات میں ایک ہی شخص ملوث ہے کیونکہ تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی شخص بچوں کے ساتھ ریپ کرنے کے بعد انہیں قتل کرتا ہے۔

حکام نے کمیٹی کو بریفنگ کے دوارن یقین دلایا کہ زینب کے قاتل کو ڈی این اے کی مدد سے کچھ روز کے اندر ہی گرفتار کر لیا جائے گا۔

حکام نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ پولیس نے زینب کے اغوا کے بعد اس کی بازیابی کے لیے کئی آپریشن کئے جس کے باوجود معصوم بچی بازیاب نہ ہو سکی اور 9 جنوری کو گھر سے تقریباً 5 سو میٹر کے فاصلے پر زینب کی لاش ملی۔

انہوں نے کہا کہ قصور واقعے کے بعد تحقیقات کا دائرہ بڑھایا دیا گیا ہے جبکہ معاملے کی تحقیقات کے لئے 3 مختلف ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: زینب کے قاتل کی گرفتاری کا کوئی حتمی وقت نہیں دے سکتے، شہباز شریف

حکام نے بتایا کہ پولیس کسی بھی شخص کو گرفتار کر کے اور اسے دباؤ میں لاکر اقبالِ جرم کرا سکتی تھی تاہم ایسا نہیں کیا گیا اور اصل ملزم کو ہی گرفتار کرنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔

قصور واقعے میں ملوث شخص کو مثالی سزا دینے کا مطالبہ

ادھر پارلیمنٹیرینز نے بھی قصور واقعے میں ملوث شخص کو مثالی سزا دینے کا مطالبہ کردیا۔

قصور کی 8 سالہ زینب کے ساتھ ریپ اور بہیمانہ قتل پر بحث کرنے کے لیے وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ریاض پیرزادہ کی جانب سے پیش کی گئی تحریک پر بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والی رکنِ اسمبلی شائستہ پرویز کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات پورے ملک میں رونما ہوتے ہیں لیکن صرف پنجاب کو ہی ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والی رکنِ اسمبلی شاہدہ اختر علی کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کو صرف مجرموں کا فوری ٹرائل کرکے اور سزا دے کر ہی روکا جاسکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے واقعات کی روک تھام اور بچوں کی حفاظت مجموعی طور پر پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے اعجاز جاکھرانی نے کہا کہ قصور واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا اور حکومت کی ناکامی کی وجہ سے چیف جسٹس پاکستان کو نوٹس لینا تھا۔

انہوں نے خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ایسا ایک واقعہ خیبرپختونخوا میں بھی سامنے آیا ہے لیکن کوئی خاطر خواہ کارروائی عمل میں نہیں آئی۔

مزید پڑھیں: بچوں کو قصور جیسے واقعات سے کیسے محفوظ رکھا جائے؟

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رکنِ اسمبلی غلام احمد بلور نے کہا کہ قصور واقعے پر بحث کے ساتھ ساتھ قانون سازوں کو مردان میں اسما کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر بھی بحث کرنی چاہیے ہے۔

اس موقع پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان سے تعلق رکھنے والے رکنِ اسمبلی عبدالوسیم نے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ سندھ میں جاگیرداروں نے اپنی نجی جیلیں بنائی ہوئی ہیں جہاں وہ غریب کسانوں اور ان کے بچوں کے ساتھ بری طرح سے پیش آتے ہیں لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی۔

بحث میں حصہ لینے والے اراکینِ اسمبلی نے قصور واقعے میں ملوث شخص کو مثالی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں