اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے قتل کا از خود نوٹس لے لیا۔

چیف جسٹس نے ان رپورٹس پر نوٹس لیا جن کے مطابق جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کو گذشتہ ہفتے شاہ لطیف کے علاقے میں پولیس نے مبینہ طور پر جعلی مقابلے میں ہلاک کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’نقیب اللہ محسود کا قتل’، راؤ انوار تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش

رپورٹس میں مقتول کے ایک قریبی عزیز کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ پولیس نے نقیب اللہ کو 2 جنوری 2018 کو اس کی دکان سے حراست میں لیا تھا اور بعد ازاں ایک جعلی مقابلے میں اسے قتل کردیا گیا۔

چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس سے 7 روز میں واقعے سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

نقیب اللہ کا قتل

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو گزشتہ ہفتے ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’پولیس مقابلے میں نوجوان کا قتل‘، بلاول بھٹو اور وزیر داخلہ سندھ نے نوٹس لے لیا

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے بتایا تھا کہ رواں ماہ کے آغاز میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ 13 جنوری کو پتہ چلا تھا کہ اسے مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ مقتول اس سے قبل بلوچستان میں حب چوکی پر ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتا تھا اور اس کے کسی عسکریت پسند گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

قتل پر ردعمل اور نوٹس

نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر داخلہ سندھ سہیل انوار سیال نے نوٹس لیا تھا اور واقعے کی تحقیقات کی ہدایت کی تھی۔

مزید پڑھیں: کراچی: راؤ انوار پر حملہ، جوابی فائرنگ میں 2 دہشت گرد ہلاک

اس کے علاوہ نقیب کی ہلاکت کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں نے فیس بک پر اپنی وال پر تعزیتی پیغام پوسٹ کیے اور نقیب اللہ کی تصاویر کو بھی شیئر کیا۔

عوام کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پولیس کے جعلی مقابلوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور پولیس میں چھپی کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

جس کے بعد نقیب محسود کی ہلاکت کے حوالے سے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے 3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کا سربراہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کو بنایا گیا تھا جبکہ ڈی آئی جی جنوبی اور ڈی آئی جی شرقی بھی ٹیم کے ارکان میں شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں