زینب قتل کیس: ایک شخص کا ڈی این اے ٹیسٹ مثبت آنے کی متضاد اطلاعات
لاہور پولیس ذرائع کے حوالے سے متضاد اطلاعات سامنے آئٗی ہیں کہ قصور میں ریپ کے بعد قتل کی جانے والے زینب کے کیس میں ایک شخص کا ڈی این اے ٹیسٹ میچ کرگیا ہے جبکہ مذکورہ شخص نے تفتیش کے دوران اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔
پولیس ذرائع کے حوالے سے سامنے والی اطلاعات کے مطابق گرفتار شخص زینب کا پڑوسی اور کوٹ روڈ کا رہائشی تھا تاہم ڈان نیوز کے مطابق ڈیوٹی افسر نے ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کی.
اطلاعات کے مطابق مذکورہ شخص کو زینب کیس کے شبہے میں ایک مرتبہ پہلے بھی حراست میں لیا گیا تھا تاہم ابتدائی تفیش کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: زینب قتل کیس کا ’ملزم‘ ڈی این اے ٹیسٹ میں بے قصور ثابت
پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مذکورہ شخص کچھ دنوں سے غائب تھا جبکہ پولیس نے اسے دوبارہ گرفتار کرکے اس کے ٹیسٹ کرائے تھے اور اس سے تفتیش بھی جاری ہے۔
اطلاعات کے مطابق پولیس ذرائع نے بتایا ہے کہ نا صرف گرفتار شخص کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے بلکہ اس نے تفتیش کاروں کے سامنے اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔
بعد ازاں پنجاب حکومت کے ترجمان ملک اسد خان نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ابتدائی رپورٹس میں کچھ ایسے شواہد ملے ہیں کہ جو اسے ملزم قرار دیتے ہیں، تاہم حتمی رپورٹ آنے کے بعد ہی درست طریقے سے تفتیش کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے قوی امکان ظاہر کیا کہ مذکورہ شخص ہی مرکزی ملزم ہو سکتا ہے لیکن ڈی این اے رپورٹ سامنے آنے کے بعد تصدیق کرسکوں گا۔
ترجمان پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ مذکورہ شخص اپنا حلیہ تبدیل کرتا رہتا تھا اور اسے پاک پتن کے قریب سے دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔
ملک اسد خان نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد کم از کم 600 افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا تھا جبکہ فارنزک لیب نے تفصیلی رپورٹ کے لیے 7 بجے کا وقت دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کیس: عدالت میں ڈی جی فرانزک اور پولیس کی رپورٹ پیش
علاوہ ازیں وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کو حکام کی تصدیق کا انتظار کرنا چاہیے تھا، ’میڈیا کے دوست تھوڑا انتظار کریں‘۔
وزیر قانون پنجاب نے کہا کہ پنجاب حکومت ذمہ داری سے ہر بات عوام کے سامنے لائے گی۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ زینب قتل میں کامیابی کے روشن امکانات ہیں، انشاء اللہ بہت جلد ملزم کو عوام کے سامنے لایا جائے گا۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز زینب قتل کیس میں پولیس اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے پیش کردہ ‘اصل ملزم’ کو ڈی این اے ٹیسٹ نے بے قصور ثابت کردیا تھا، جس کے بعد قاتل کی تلاش میں سرگرداں جے آئی ٹی زینب قتل کیس میں ایک مرتبہ پھر اندھیری گلی میں آ کھڑی ہوئی ہے اور اس کے پاس ملزم کا کوئی سراغ نہیں۔
پولیس نے 23 سالہ عمر فاروق کو حراست میں لیا تھا جس کے بارے میں پولیس کو یقین تھا کہ وہ ہی زینب قتل کیس کا اصل ملزم ہے تاہم پیر کو آنے والی ڈی این اے رپورٹ نے عمر فاروق کو بے قصور ثابت کردیا۔
قصور میں 6 سالہ زینب کا قتل
صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔
جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت اس کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔
بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس واقعے میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہل علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی۔
بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔
علاوہ ازیں لاہور ہائی کورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا اور پولیس حکام کو طلب کیا تاہم ایک روز بعد ہی سپریم کورٹ نے زینب قتل کا از خود نوٹس لیا اور لاہور ہائی کورٹ کو کیس کی سماعت سے روز دیا تھا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ہمراہ کیس کی سماعت کے لیے بینچ میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی شامل ہیں۔