اسلام آباد: سپریم کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں متفرق درخواستوں کی سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے شاہ رخ جتوئی سمیت 3 ملزمان کو دی جانے والی ضمانت اور مذکورہ کیس دوبارہ سول عدالت میں چلانے کا فیصلہ معطل کرکے ملزمان کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے شاہ زیب قتل کیس میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

سپریم کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں 28 نومبر کو سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے دیا جانے والا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پولیس کو ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا۔

عدالت عظمیٰ نے تینوں ملزمان کے خلاف سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم بھی دیا۔

اسلام آباد پولیس شاہ رخ جتوئی کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرکے لے جارہی ہے— فوٹو:ڈان نیوز
اسلام آباد پولیس شاہ رخ جتوئی کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرکے لے جارہی ہے— فوٹو:ڈان نیوز

عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر ملزمان ضمانت کی درخواست دائر کریں گے تو اس پر سندھ ہائی کورٹ سماعت آئندہ 2 ماہ کے اندر نیا بینچ قائم کرکے اس کی سماعت کا آغاز کرے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے ملزمان کو کمرہ عدالت سے گرفتار کیا اور انہیں متعلقہ تھانے میں منتقل کیا گیا۔

اس کے علاوہ عدالت نے تمام دائر درخواستوں کو از خود نوٹس میں تبدیل کردیا اور ریمارکس دیئے کہ اس کسی اک تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

ڈان نیوز کے مطابق ملزمان، شاہ رخ جتوئی، سراج تالپور اور سراج علی تالپور کو بعد ازاں سندھ پولیس کے حوالے کیا جائے گا اور سندھ پولیس انہیں حراست میں لے کر متعلقہ عدالت سے ان کے راہداری ریمانڈ کی استدعا کرے گی۔

مزید پڑھیں: شاہ زیب قتل کیس: سیشن عدالت کے حکم پر ملزمان ضمانت پر رہا

اس حوالے سے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے سماجی کارکن اور درخواست گزار جبران ناصر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے ہماری اپیل پر از خود نوٹس لیا اور ان ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا اور ہمیں خوشی ہے کہ ہمیں انصاف ملا۔

گزشتہ روز مزکورہ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا تھا کہ عدالت شاہ زیب قتل کیس میں 421 درخواستوں پر سماعت نہیں کرسکتی، انسانی حقوق کی تنظیمیں ایک وکیل مقرر کر کے عدالت سے رجوع کریں۔

اس سے قبل درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ سول سوسائٹی کے 421 افراد نے درخواست دائر کی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اتنے زیادہ لوگوں کو ایک ساتھ نہیں سن سکتے۔

اس موقع پر ملزم شاہ رخ جتوئی عدالت میں پیش ہوئے تھے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا تھا کہ اس کیس میں کتنے ملزم ہیں اور باقی کہاں ہیں جس پر شاہ رخ جتوئی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا تھا کہ اس کیس میں چار ملزمان ہیں اور تمام ہی عدالت میں موجود ہیں جس کے بعد عدالت نے ملزمان کو روسٹرم پر بلالیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شاہ زیب قتل کیس: انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایک وکیل مقرر کرنے کی ہدایت

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران شاہ زیب قتل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ملزمان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔

یاد رہے کہ 26 دسمبر 2017 کو وکلا، انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر اور کراچی کے دیگر شہریوں نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں کے مقدمے کو سیشن عدالت بھیجنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

شاہ زیب قتل

یاد رہے کہ 24 دسمبر 2012 میں کراچی میں ڈیفنس کے علاقے میں 20 سالہ نوجوان شاہ زیب شاہ رخ جتوئی اور سمیت 4 ملزمان نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت نے نوجوان شاہ زیب کو قتل کرنے کے جرم میں شارخ جتوئی اور سراج علی تالپور کو سزائے موت سنادی تھی جبکہ سجاد علی تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

مزید پڑھیں: شاہ زیب قتل کیس: سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

عدالت کی جانب سے سزائے موت سنانے کے چند ماہ بعد شاہ زیب کے والدین نے معافی نامہ جاری کردیا تھا جس کو سندھ ہائی کورٹ نے منظور کیا تھا۔

شاہ زیب کے والدین کی جانب سے معافی نامہ جاری کرنے کے بعد سزائے موت دہشت گردی کی دفعات کے باعث برقرار تھی تاہم 11 نومبر 2017 کو سندھ ہائی کورٹ نے سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ تفتیش کا حکم جاری کردیا تھا جس کا اطلاق گزشتہ ماہ سے ہوچکا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Faisal Hussain Feb 01, 2018 06:45pm
Bravo.