الیکشن کمیشن آف پاکستان ( ای سی پی) کی جانب سے سینیٹ انتخابات میں پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کے لیے ڈپٹی کنوینر خالد مقبول صدیقی کا اختیار قبول کرلیا۔

ڈان نیوز کے مطابق صوبائی الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے آئین کے مطابق ڈاکٹر فاروق ستار کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کا اختیار نہیں بلکہ خالد مقبول صدیقی کے دستخط سے پارٹی ٹکٹ قابل قبول ہوگا۔

دوسری جانب صوبائی الیکشن کمیشنر کی جانب سے اس بات کی نشاندہی کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار صوبائی الیکشن کمیشن کے دفتر پہنچے اور الیکشن کمیشن کے افسران کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔

اس موقع پر انہوں نے کہا کہ میری موجودگی میں ڈپٹی کنوینر اجلاس بھی نہیں بلا سکتے اور بحیثیت پارٹی کنوینر مجھے پارٹی ٹکٹ کا اختیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی کی کنوینر کی غیر موجودگی میں یہ تمام اختیارات ڈپٹی کنوینر کے پاس ہوسکتے ہیں لیکن فی الحال کنوینر موجود ہے۔

ڈاکٹر فاروق ستار کے جواب پر الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ یہ آپ کے اندرونی معاملات ہیں اس سے ہمارا تعلق نہیں ہے، ہم آئین کے مطابق کام کر رہے ہیں، اس سلسلے میں آپ عدالت بھی جاسکتے ہیں۔

بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ رابطہ کمیٹی نے میری غیر موجودگی میں اجلاس بلایا اور ڈپٹی کنوینر خالد مقبول کو ٹکٹ جاری کرنے کا اختیار دیا۔

انہوں نے کہا کہ میری سربراہی کے بغیر سارے اجلاس چیلنج کیے جاسکتے ہیں اور مجھے پارٹی آئین یہ حق دیتا ہے کہ میں ان اجلاسوں کو چیلنج کرسکوں۔

ان کا کہنا تھا کہ پارٹی آئین کے تحت ڈپٹی کنوینر کا اختیار میری مدد کرنا ہے لیکن اگر مجھے یہ محسوس ہوگا کہ اس کا غلط استعمال ہورہا ہے تو میں یہ اختیارات واپس لے سکتا ہوں۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل کے تحت کنوینر کی غیر حاضری کی صورت میں ڈپٹی کنوینر رابطہ کمیٹی کا اجلاس بلا سکتا ہے، تاہم ڈپٹی کنوینر کا کام مخصوص ہے اور وہ اس سے زیادہ کام نہیں کرسکتا۔

سربراہ ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ رابطہ کمیٹی کے ارکان کو شوکاز نوٹس پارٹی موقف سے انحراف پر جاری کیے اور میں نہیں چاہتا کہ پارٹی کے کسی معاملے کو عدالت لے کر جاؤں۔

اس حوالے سے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے 9 جنوری کو جو دستور پیش کیا گیا تھا اس میں لکھا تھا کہ رابطہ کمیٹی ہی ٹکٹ جاری کرنے کی مجاز ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے دستور میں یہ بات واضح کی گئی تھی کہ سینیٹ انتخابات سے متعلق جو بھی اختیارات ہوں گے وہ ڈپٹی کنوینر خالد مقبول صدیقی کے پاس ہی ہوں گے اور وہی ٹکٹ جاری کرسکیں گے۔

مزید پڑھیں: رابطہ کمیٹی نے پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کا اختیار خالد مقبول کو دے دیا

ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے آئین کے مطابق اگر ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے کوئی ٹکٹ جاری کیا بھی جائے گا تو اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اس بات کا پابند ہے کہ وہ پارٹی کے دستور کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرے اور اس دستور کے تحت خالد مقبول وہ مجاز اتھارٹی ہیں جو پارٹی ٹکٹ جاری کرسکیں۔

یاد رہے کہ اس سے قبل ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کے اراکین کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے لیے الگ الگ امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا گیا تھا.

اس کے ساتھ ساتھ اراکین رابطہ کمیٹی کی جانب سے ساتھ میں یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے دستور کا استعمال کرتے ہوئے سینیٹ انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کا اختیار خالد مقبول کو دے دیا ہے اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو خط بھی لکھ دیا ہے.

تاہم گزشتہ روز پریس کانفرنس کے دوران پہلے رابطہ کمیٹی کے رکن کنور نوید نے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط کو واپس لینے کا اعلان کیا گیا تھا.

اس اعلان کے بعد سربراہ ایم کیو ایم پاکستان ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے گزشتہ رات پریس کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ سینیٹ انتخابات کے لیے جمع کرائے گئے 15 امیدواروں کے 17 فارم میں سے 4 نئے امیدواروں کے نام پر مشاورت کے بعد اعلان کیا جائے گا.

ایم کیو ایم اختلافات

خیال رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کے درمیان اختلاف 6 فروری کو اس وقت شروع ہوئے تھے جب فاروق ستار کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے لیے کامران ٹیسوری کا نام سامنے آیا تھا، جس کی رابطہ کمیٹی نے مخالفت کی تھی۔

رابطہ کمیٹی کی مخالفت کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے عارضی مرکز بہادر آباد میں اراکین رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا جس میں 6 ماہ کے لیے کامران ٹیسوری کی رکنیت معطل کرتے ہوئے انھیں رابطہ کمیٹی سے بھی نکال دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: یہ معاملہ بھائیوں کا ہے اور بھائیوں کے درمیان ہی حل ہوگا، فاروق ستار

ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے اس اعلان کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا اور کچھ دیر کے لیے ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کے ارکان کی رکنیت بھی معطل کی تھی۔

بعد ازاں رابطہ کمیٹی کی جانب سے ایک وفد مذاکرات کے لیے فاروق ستار کے گھر بھی بھیجا گیا تھا لیکن مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے تھے۔

اس حوالے سے 8 فروری کی شب کو ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی اور ڈاکٹر فاروق ستار کے درمیان بات چیت ہوئی لیکن وہ بے سود رہی تھی اور رابطہ کمیٹی کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے لیے امیدواروں کے نام سامنے لائے گئے تھے۔

جس کے بعد سربراہ ایم کیو ایم ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ گھر کے مسئلے کو چوراہے پر نہیں لانا چاہیے تھا، اگر پارٹی میں انھیں تقسیم کرنی ہوتی تو وہ پہلے ہی رابطہ کمیٹی کو تحلیل کردیتے۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Feb 11, 2018 05:11pm
ڈاکٹر صاحب کے ساتھ یہ اچھا نہیں ہوا، ایک پارٹی میں ایک سربراہ رہنا چاہیے