امریکا کے نینشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ڈین کوٹس نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج انسداد دہشت گردی میں امریکا کے ساتھ تعاون کررہی ہے تاہم ملک میں انتہاپسندوں کے لیے آسانیاں موجود ہیں۔

ڈین کوٹس نے امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے بیان میں کہا کہ 'پاکستان سے تعلق رکھنے والے انتہاپسند گروپ بھارت، افغانستان اور امریکی مفادات پر حملوں کے لیے اپنی محفوظ پناگاہوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں'۔

پاکستان بارہا اس طرح کے بیانات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کرچکا ہے کہ پاکستان میں اس طرح کے گروپس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

امریکی انٹیلی جنس ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ 'پاکستانی فوج کی جانب سے طالبان اور دیگر گروہوں کے خلاف جاری آپریشنز اس بات کا عکاس ہیں کہ ان گروپس کے خلاف مزید کارروائیوں کی ہماری درخواستوں پر مزید تیزی دکھائی جارہی ہے'۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اب تک جو کارروائیاں کی گئی ہیں وہ ان گروپس پر کوئی خاص دباؤ نہیں بڑھا پائیں اور کوئی پائیدار اثر نہیں ہورہا ہے۔

کوٹس کا کہنا تھا کہ امریکی محکمہ خزانہ نے طالبان، حقانی اور دیگر گروپس کے 8 اراکین کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا ہے تاکہ دہشت گردوں پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔

سینیٹ کی کمیٹی کو اپنی بریفنگ میں انھوں نے پاکستان پر مزید الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ امریکی انٹیلی جنس کے کارندوں کا ماننا ہے کہ پاکستان 'ان دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھے گا جبکہ امریکا کے ساتھ محدود انسداد دہشت گردی تعاون بھی ہوگا'۔

قبل ازیں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کابل میں امریکی اور نیٹو عسکری حکام کی موجودگی میں ہونے والی چیفس آف ڈیفنس کانفرنس میں واضح کیا تھا کہ پاکستان نے انتہاپسندوں کی پناگاہوں کو اپنے علاقوں سے ختم کردیا ہے اور وہ دوسروں سے بھی اسی کی توقع رکھتا ہے۔

تاہم آرمی چیف کے اس بیان کے چند گھنٹوں بعد امریکی انٹیلی جنس کے سربراہ کی جانب سے پاکستان پر ایک مرتبہ پھر الزامات کی بوچھاڑ کی گئی۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کی ہر طرح کی پناہ گاہوں کو ختم کردیا ہے تاہم دہشت گردوں کی موجودگی کے نشانات ملتے ہیں جو 27 لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ موثر سیکیورٹی ہم آہنگی نہ ہونے اور افغان مہاجرین کی موجودگی کا دہشت گرد فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن جاری آپریشن ردالفساد کے باعث ان کا سراغ لگایا جارہا ہے اور انھیں نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔

انھوں نے شرکا کو یقین دلایا کہ پاکستانی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور پاکستان اسی طرح کی توقع دوسروں سے بھی رکھتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں