اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے نجی ٹی وی کے اینکر پرسن مطیع اللہ جان توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران پاکستان الیکٹرنک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے جیو کے پروگرام ’رپورٹ کارڈ‘ کا ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ٹرانسکرپٹ طلب کرلیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے نجی ٹی وی کے اینکر پرسن مطیع اللہ جان توہین عدالت کیس کی سماعت کی، جہاں مطیع اللہ جان کا پورا پروگرام ’اپنا اپنا گرہبان‘ دکھایا گیا۔

اس موقع پر نوائے وقت گروپ کی مالکن رمیزہ مجید نظامی اور اینکر پرسن مطیع اللہ جان ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ پروگرام میں متعدد مرتبہ ثاقب نثار، ثاقب، شوکت صدیقی کہہ کر پکارا گیا۔

انہوں نے استفسار کیا کہ عدلیہ مخالف پروگرام کیا گیا کیوں نہ آپ کا لائسنس منسوخ کیا جائے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: جنگ اور دی نیوز کے ایڈیٹر شہ سرخی پر وضاحت دینے کیلئے طلب

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ یہ ایک اینکر بتائے گا کہ یہ قانونی یا غیر قانونی ہے؟ آپ لوگ بلیک میل کرتے ہیں؟ کیا آپ قانون سے بالاتر ہیں؟

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ کل پرسوں جیو نے تماشا لگایا ہوا تھا اس کو بھی نوٹس کرتے ہیں اور انہوں نے پیمرا سے جیو کے پروگرام رپورٹ کارڈ کا ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ٹرانسکرپٹ طلب کرلیا۔

عدالت عالیہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا اینکر کی ٹریننگ دیکھی جاتی ہے، سوسائٹی میں فساد نہ ڈالیں؟ پوری عدلیہ کو بدنام کر رہے ہیں اور میں اس معاملے کو ختم نہیں کروں گا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ ’ہمارے گھر میں نوائے وقت اخبار ایک مقدس اخبار سمجھا جاتا ہے جبکہ پروگرام میں سپریم کورٹ کے نوٹس کو کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے پیش کیا گیا‘۔

انہوں نے مطیع اللہ جان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اتنا پڑا پروگرام بغیر تحقیق کے کر دیا، ہم وضاحت نہیں دے سکتے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ قتل کرنے کا لائسنس مل گیا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ہمارے چیف جسٹس کا نام لینے کا سلیقہ ان کو نہیں، سول جج کے حکم کو غیر قانونی کہنے کا اختیار آپ کو کس نے دیا؟ انہوں نے کہا کہ 23 سال بے داغ وکالت کی۔

اس موقع پر وقت ٹی وی کی سی ای او رمیزہ نظامی نے عدالت عالیہ سے درخواست کی کہ ہمیں نوٹس نہ کریں، جبکہ مطیع اللہ جان نے عدالت سے وقت مانگ لیا۔

یہ بھی پڑھیں: دی نیوز کے رپورٹر نے اپنی خبر پر معافی مانگ لی

جس پر عدالت نے حکم دیا کہ آپ لوگ فیصلہ کریں کہ آپ نے معافی مانگنی ہے یا کیس لڑیں گے۔

خیال رہے کہ 12 فروری 2018 کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران نوائے وقت گروپ کی چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) رمیزہ مجید نظامی کو عدالت میں طلب کیا تھا اور ساتھ ہی خبر دار کیا تھا کہ اگر عدالتی احکامات کے خلاف جانے کی کوشش کی تو گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جائیں گے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے یہ حکم وقت نیوز ٹی وی چینل پر نشر ہونے والے پروگرام کے حوالے سے توہین عدالت کیس میں جاری کیا تھا۔

خیال رہے کہ 5 فروری کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف 8 میں فٹبال گراؤنڈ پر وکیلوں کی جانب سے تجاوزات کے معاملے پر وقت نیوز پر مطیع اللہ جان نے ایک پروگرام ’اپنا اپنا گرہبان‘ کی میزبانی کی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے حکم دیا گیا تھا کہ اینکر پرسن نے اظہار رائے سے متعلق آئینی شق سے بے خبر ہو کر پروگرام کیا۔

اس حوالے سے میڈیا گروپ کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ سفیر حسین شاہ نے عدالت سے رمیزہ مجید نظامی کی پیشی سے استثنیٰ کی درخواست کی اور موقف اختیار کیا تھا کہ طبیعت کی ناسازی کے باعث زمیزہ مجید نظامی لاہور سے اسلام آباد سفر نہیں کرسکتی۔

پرویز مشرف کے قریبی ساتھی کی شادی کا کیس

علاوہ ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق صدر پرویز مشرف کے قریبی ساتھی اور آل مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل ڈاکڑ امجد کی شادی کے کیس کی سماعت ہوئی۔

سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے عدالتی حکم نظر انداز کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔

عدالت عالیہ نے ریمارکس دیئے کہ آئندہ سماعت پر ڈاکڑ امجد پیش نہ ہوئے تو انٹرپول کے ذریعے ریڈ وارنٹ جاری کریں گے۔

مزید پڑھیں: میر شکیل الرحمن اور دیگر کو جواب جمع کرانے کیلئے 14 فروری کی مہلت

اس موقع پر جسٹس شوکر عزیز صدیقی نے استفسار کیا کہ طلبی کے باوجود ڈاکڑ امجد عدالت کے روبرو پیش کیوں پیش نہیں ہوئے؟ جس پر ڈاکٹر امجد کے وکیل نے بتایا کہ ڈاکٹر امجد کاروبار کے سلسلے میں دوبئی میں موجود ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ کیا وہ پاکستان صرف شادیاں کرنے آتے ہیں؟ اور ساتھ ہی حکم دیا کہ ڈاکٹر کوئی بھی ہیں وہ آئندہ سماعت پر پیش ہوں۔

اس موقع پر روبینہ نامی خاتون نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکڑ امجد کی ساتھ شادی کے تمام ثبوت موجود ہیں جبکہ ڈاکڑ امجد اب شادی سے انکاری ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں