شام میں جاری خانہ جنگ مزید بدتر صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے جبکہ حکومت کی حمایت یافتہ ملیشیا نے گزشتہ روز عفرین کے لیے پیش قدمی کردی ہے جو گزشتہ مہینے تک ترکی کے حمایت یافتہ شامی باغیوں کے زیر اثر تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ترکی اور واشنگٹن کا خیال ہے کہ شامی کردش مسلح گروپ عوامی تحفظ کے یونٹس (وائی پی جی) کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی شاخ ہے، جو 1984 سے ترکی کی ریاست کے خلاف بغاوت کر رہی ہے۔

یہ پڑھیں: شامی فورسز نے اسرائیلی جنگی طیارہ مار گرایا

تاہم امریکا، وائی پی جی کو داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے محدود پیمانے پر عسکری امداد فراہم کرتا ہے، امریکا کی جانب سے جنگ میں متنازع اور محدود کردار کی وجہ سے شامی کردش ملیشیا کو شام کے صدر بشار اسد کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھنا پڑتا ہے۔

دوسری جانب وائی پی جی کے ترجمان نوری محمد نے صحافیوں کو بتایا کہ ‘شامی حکومت کی جانب سے روانہ فورسز کو سرحد سے متصل مقامات پر تعینات کیا جائے گا تاکہ سرحد کو حفاطت کیا جاسکے۔

اسی دوران ترکی کے صدر طیب اردگان نے واضح کیا کہ آنے والے دنوں میں ہم با آسانی عفرین کے مرکزی حصے کا محاصرہ کرلیں گے۔

انہوں نے کہا کہ شامی حکومت نے ‘دہشت گردوں’ کے حق میں کردار ادا کیا اور دعویٰ کیا کہ بشار اسد کی فورسز کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔

مختلف ممالک کے فوجی دستوں کی آمد سے شام کی جاری جنگ میں مزید تناؤ پیدا ہوگیا ہے اور شامی حکومت کی حمایتی یافتہ ملیشیا جو شامی کردش کی دفاع کے لیے آئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا امریکا، شام میں اعلیٰ روسی فوجی افسران کی ہلاکت میں ملوث؟

اگر صورتحال یہ ہے کہ ترکی اور اس کے اتحادی باغی بھرپور انداز میں بشار اسد کی حمایت یافتہ ملیشیا کے خلاف گھیرا تنگ کررہے ہیں جو ایران اور شامی کردش کے ہمراہ ایران کے ساتھ تعاون کررہے ہیں اور اسد حکومت اور شام میں ایران کی موجودگی برداشت نہیں کرتے، تو مذکورہ صورتحال میں حالات مزید خراب ہو جائیں گے اور برسوں سے جاری خانہ جنگی میں مزید وسعت آسکتی ہے۔

ایرانی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو عفرین میں ترک آپریشن کو زیادہ خوش آئند تصور نہیں کیا گیا، ایرانی رہنما بشمول صدر حسن روحانی نے جارحیت کی مخالفت کی اور شام کے معاملے پر روس، ایران اور ترکی کے مابین مذاکرات کے لیے دھچکا قرار دیا۔

مزید پڑھیں: شام: روسی سفارت خانے پر مارٹر شیل حملہ

دوسری جانب میڈل ایسٹ افئیر ویب سائٹ المونیٹر کے مطابق ایرانی حکام نے اپنے ترک ہم منصب پر زور دیا تھا کہ وہ شام میں عسکری کارروائیاں کرنے سے گریز کرے۔

واشنگٹن میں میڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ فیلو گونٹول نے لکھا کہ ‘ترکی کو امید تھی کہ وہ عفرین میں داخل ہو سکے گا اور اس کے شراکت دار دوسرے راستوں کی جانب دیکھیں گے، انقرہ نے یہ اس وقت سوچ تھا کہ جب روس نے کردش انکلیو میں ترکش ملٹری کی دخل انداز پر گرین سگنل دیا جبکہ روس کو عفرین کی فضائی حدود پر پورا کنٹرول ہے’۔

انہوں نے لکھا کہ ‘حالیہ پیش رفت سے اشارہ ملتا ہے کہ روس اور ایران کی شراکت داری اتنی مضبوط نہیں ہوگی جتنا انقرہ نے امید لگا رکھی تھی’۔

تبصرے (0) بند ہیں