کیا ہم نے کبھی دوڑتی گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے ان بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی کی ہے؟ سگنل پر کھڑی صافیاں بیچنے والی چھوٹی سی بچی کو دیکھ کر میرے ذہن میں ایک سوال اُٹھا کہ کیا کبھی معاشرے کا یہ منظر تبدیل ہوسکے گا؟ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ حکومتی عدم توجہی اور معاشرتی سرد رویوں کے باعث سڑکوں پر زندگی گزارنے والے کم و بیش 15 لاکھ بے گھر بچوں کو قومی دھار ے میں لانے کے لیے کسی نے اپنے فرائض آخر کیوں نہیں نبھائے؟

یہ بچے، جن کے ذکر سے ہر چہرے پر ایک خاص تاثر اُبھرتا ہے، جن کی موجودگی سے ایک خاص احساس ہمارے آس پاس رہتا ہے۔ یہ نومولود نسل، جن کے وجود کے بغیر ہماری جوانی کا مستقبل تاریک، ازدواجی زندگی بے مقصد اور ویران ہے، یہ وہ پریاں، وہ شہزادے ہیں جن کی موجودگی سے مکان، گھر بن جاتے ہیں۔ ان کی آوازیں شور نہیں رونق سے بھرپور ہوتی ہیں۔ ان کے سوال بے مقصد نہیں، ان کے ذہین ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ ان کے لاجواب کردینے والے جواب کبھی کسی نئے زاویہ فکر سے عاری نہیں ہوتے۔

ہمارے بچے، موجودہ نسل کے نگہبان، مستقبل کے کامیاب انسان، ہمارے ملک و قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ جن کا بچپن کسی باغ میں کھیلتے ہوئے گزرنا ان کا اولین حق ہے۔ مگر خستہ اور بدبودار لباس میں ملبوس، زمانے کے سرد و گرم کو سہنے والے ان ننھے بچوں کے ماتھے پر آئے گرد آلود بال ان کے چہروں پر سجی انمول معصومیت کو چھپانے سے قاصر رہتے ہیں۔ نہ جانے کس ڈالی کے پھول کبھی کسی سڑک تو کبھی کسی چوراہے پر روز ہی تو کھلے ہوئے پائے جاتے ہیں لیکن ان کی آبیاری کے ذمہ دار، ان کی حالت زار سے ناواقف اور مستقبل کی فکر سے آزاد کسی ڈیرے یا مزار پر پڑے رہتے ہیں اور شام ڈھلے کسی ٹھیکیدار کی طرح ان کی آمد کے منتظر رہتے ہیں کہ پیسوں کا حساب کرنا ہے۔

پڑھیے: ریپ کے شکار بچے

اس انتظار میں خود غرضی کا عنصر غالب رہتا ہے۔ دولت اور نوٹوں کی ہوس میں وہ ان بچوں سے ان کا انمول بچپن چھین کر ان کا تابناک مستقبل خاک میں ملا دیتے ہیں۔ حالات کے گرداب میں پھنسے ان کم سنوں نے اگر اپنا نصیب خود چُنا ہوتا تو روز یوں ایک سا منظر پلٹ پلٹ کر میری اور آپ کی نظروں کے سامنے ناچ نہ رہا ہوتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ بے قصور زینب کا عکس تو دھندلاتا جا رہا ہے لیکن ہر روز ایک نیا عکس میرے دماغ کے پردے سے چپک جاتا ہے۔ یہ تسلسل روکنے کے لیے کسی لانگ مارچ، ٹرین مارچ کا حصہ بنا جائے یا احتجاجی دھرنا میں صورتحال بدلنے تک ڈیڈ لائن دی جائے؟ قیامت تو نہیں آئی لیکن انسان کو انسانیت کا درس دینے کی نوبت آگئی۔ یہ کس کے اعمال کا نتیجہ ہے جس کا خمیازہ پوری نسل بھگت رہی ہے؟

المیہ یہ ہے کہ ملک کی تاریخ میں رونما ہونے والے المناک واقعات میں سے بیشتر کا تعلق براہِ راست بچوں سے ہے۔ یعنی ہمارے وطن کے معماروں کی نہ صرف عصمتیں بلکہ جانیں مسلسل سولی پر لٹکی ہوئی ہیں۔ ملک کا کوئی صوبہ اس عتاب سے محفوظ نہیں۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں بچیوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کردیا جاتا ہے، خیراتی اداروں کے جھولوں میں ڈال دیا جاتا ہے یا انہیں لڑکی ہونے کی بنا پر بیچ دیا جاتا ہے۔

بچے، جن کو ہم پھولوں سے تشبیہ دیتے ہیں، جن کی مہک سے ہر گھر کا آنگن مہکتا ہے، جن کی کامیابیوں سے والدین کا سر فخر سے بلند ہوتا ہے، ان کلیوں کو ہمارے معاشرے کے چند خاردار کانٹے کِھلنے سے پہلے ہی مسل کر، اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر، ان کی لاش کو کسی گٹر، ندی نالے یا جھاڑیوں میں بھوکے جانوروں کی خوراک بننے کے لیے پھینک جاتے ہیں۔ پاکستان سے بچے اغواء کرکے ان کی بیرون ملک اسمگلنگ کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ اس لیے ہمیں اس بات پر بھی غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے کوئی بچہ محفوظ ترین پناہ گاہ اور عزیز ترین رشتوں کو چھوڑ کر سڑک پر آنے پر مجبور ہوجاتا ہے؟

پڑھیے: بچوں کو قصور جیسے واقعات سے کیسے محفوظ رکھا جائے؟

یہ تلخ حقیقت ہمیں کڑوی گولی کی طرح ہر لمحہ نگلنی پڑ رہی ہے کہ سانحہ قصور نے ثابت کردیا کہ ہمارے معاشرے میں بچے کس قدر غیر محفوظ ہیں۔ کسی بھی ماحول میں خود کو غیر محفوظ سمجھنے والا بچہ جب کسی مشکل سے دوچار ہونے کے بعد اپنے والدین کی طرف دیکھتا ہے تو لازم ہے کہ ایسی صورتحال میں اس کے والدین نہ صرف بچے کو سنیں بلکہ اس کی کہی ہوئی ہر بات کو اہمیت بھی دیں۔ اس کے لیے وہ سُپر مین بن جائیں جو جادو سے اس کے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے مسئلے کو چٹکیوں میں غائب کردے۔ والدین کا جواب ایسا ہو جو بچے کو مطمئن کردے۔ ہمارا رویہ ایسا ہو جو بچے کو یقین دلائے کہ وہ اپنا مسئلہ ہم سے شیئر کرکے بالکل درست کررہا ہے۔

میڈیا پر ننھی زینب پر گزرنے والے کرب اور اس کے والدین پر ٹوٹنے والی قیامت کا واقعہ ملک کے کم و پیش ہر بچے کی نظروں سے گزرا اور سماعتوں سے ٹکرایا۔ کیا والدین نے کبھی غور کیا کہ ان کے بچوں کے بدلتے ہوئے رویے، روز بروز بڑھتی خاموشی، خاندان سے دوری، تنہائی کی خواہش یا کوشش کیوں بڑھتی جارہی ہے؟ والدین کو جاننا ہوگا کہ بچہ ان سے کیا چاہتا ہے۔ یاد رکھیں محبت اور شفقت کی بھوک ہمیشہ ہر بچے میں پلتی رہتی ہے، یہ فطری عمل ہے کہ توجہ اور اپنائیت جہاں سے ملے گی، بچہ اسی جانب مائل ہوگا۔ بچہ محبت کے ساتھ شخصی احترام بھی چاہتا ہے۔ ماہرین کے نزدیک بچے کے بنیادی مطالبات کو پورا کرنا اور اس کے جذبات کی قدر کرنا ہی اس کا احترام ہے۔

سانحہ قصور کے رونما ہوتے ہی گویا پنجاب سمیت ملک بھر کے متاثرہ والدین کو اپنا دکھ بیان کرنے کے لیے زبان مل گئی۔ انصاف کی فراہمی سے مایوس عوام ریاستی اداروں اور پولیس سے مدد مانگنے کے بجائے چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف دیکھنے لگے اور کیوں نہ دیکھیں، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے معصوم شہداء، نقیب اللہ، انتظار حسین اور مقصود کی ہلاکت کے پیچھے بھی تو ملک کے طاقتور عناصر تھے۔ جب محافظ ہی قاتل نکلے تو عوام کہاں جائے؟

پڑھیے: 'باجی دروازہ کھولیں، میں مر رہی ہوں'

پنجاب میں اگر خواتین اور بچوں کی عصمتیں محفوظ نہیں تو سندھ میں جوان اندھی گولیوں کے نشانے پر ہیں۔ کم سن زینب کا سانحہ منظر عام پر آتے ہی کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما مقتولہ بچی کے غم زدہ والدین کے درمیان نظر آئے اور کیوں نہ نظر آئیں، عام انتخابات زیادہ دور تو نہیں۔ عوام کو انصاف دلانے کے دلاسے کے بدلے یہی سیاست دان ووٹ کھرے کریں گے۔

بے شک تحفظ کے ساتھ انصاف کی فراہمی ریاستی اداروں کی اولین ذمہ داری ہے تو کیا حکومت پنجاب کی جانب سے فروری کے دوسرے ہفتے میں چائلڈ پروٹیکشن ڈے منا کر یہ تاثر دیا گیا کہ ملک کا ہر بچہ محفوط ماحول میں پرورش پا رہا ہے؟

ملک تو آزاد ہوگیا لیکن افسوس کے ساتھ اس کی عوام غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور جہالت جیسے بنیادی مسائل سے 70 برسوں بعد بھی آزادی اور چھٹکارا حاصل نہ کرسکی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومتِ وقت اس ملک کے والدین کو اس حد تک مجبور کیوں کررہی ہے کہ وہ اپنے جگر گوشوں کو یا تو چند روپوں کے عوض فروخت کردیں یا انہیں بھوک و افلاس کے باعث زہر دے کر ماردیں؟ چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کیا کر رہا ہے؟ کیا پاکستان وہ ملک ہے جہاں ماں باپ اپنے بچوں کی کفالت کرنے میں ناکام ہیں؟ کیا ہم اپنے بچوں کو گھر کی چار دیواری میں تحفظ کے نام پر قید کردیں؟ ان کے دلوں میں معاشرے میں جاری جرائم کا خوف بٹھادیں؟ ایسا کرکے ہم اپنی نسل کو خود اپنے ملک سے متنفر کر رہے ہیں۔ ہم نادانستہ طور پر انہیں یہ بتا رہے ہیں کہ بچوں، یہ جگہ رہنے کے قابل نہیں۔ یہاں تمہاری جانیں اور مستقبل محفوظ نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں