لاہور: انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے قصور ویڈیو اسکینڈل کے 12 ملزمان کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔

اے ٹی سی عدالت کے جج چوہدری الیاس نے قصور ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت کی۔

استغاثہ کی جانب سے 16 گواہان پیش کیے گئے تھے، تاہم عدالت نے تمام دلائل مکمل ہونے کے بعد 24 فروری کو فیصلہ سناتے ہوئے 12 ملزمان کو عدم ثبوتوں کی بنیاد پر بری کیا۔

خیال رہے کہ 2015 میں یہ رپورٹس منظر عام پر آئیں تھی کہ قصور سے پانچ کلو میٹر دور قائم حسین خان والا گاؤں کے 280 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ اس دوران ان کی ویڈیو بھی بنائی گئی جبکہ ان بچوں کی عمریں 14 سال سے کم بتائی گئی تھیں۔

مزید پڑھیں: قصور اسکینڈل: مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل

رپورٹس کے مطابق ان بچوں کے خاندانوں کو ویڈیو دکھا کر بلیک میل بھی کیا جاتا تھا اور ان کے بچوں کی ویڈیو منظر عام پر نہ لانے کیلئے لاکھوں روپے بھتہ طلب کیا جاتا تھا۔

واضح رہے کہ قصور میں بچوں کے ساتھ ہونے والی بد فعلی، جنسی زیادتی اور اس کی فلم بندی کے واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد سات متاثرہ بچوں کے عزیزوں کی جانب سے ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی۔

قصور اسکینڈل کے حوالے سے 19 مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالت میں منتقل کیے گئے تھے جن میں 4 مقدمات کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے دیگر عدالتوں میں منتقل کردیا گیا تھا جبکہ دیگر مقدمات زیر التوا ہیں۔

واضح رہے کہ 18 اپریل 2016 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے قصور میں بچوں کے ساتھ بدفعلی اور زیادتی میں ملوث دو ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: قصور اسکینڈل: 'کیس فوجی عدالت میں چلایا جائے'

عدالت نے مجرم حسیم عامر اور فیضان مجید کو 25، 25 سال قید کی سزا سنائی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں 3 لاکھ روپے فی کس جرمانے کی بھی سزا سنائی گئی تھی۔

بعدِازاں 13 فروری 2018 کو انسداد دہشت گردی عدالت نے قصور ویڈیو اسکینڈل کیس میں تین مجرموں کو عمر قید اور تین تین لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں