کراچی کے ایک متوسط علاقے کی مسجد میں 66 سالہ ابوالحسن نمازِ فجر کے بعد گِڑ گِڑا کر دعا مانگ رہے ہیں، اس پیرانہ سالی میں اُن کی دلی خواہش پوری ہونے کا معاملہ لٹک سا گیا ہے، وہی دلی خواہش جو دنیا کے ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے کہ کسی دن خدا اپنے در پر بُلادے اور گنبدِ خضرہ کا دیدار عطا فرمائے، ابوالحسن کے بیٹوں نے بھی ان کی تڑپ کو دیکھ ہر ماہ کچھ پیسہ پس انداز کرکے ان کے لیے فریضہ حج ادائیگی کا بندوبست کردیا ہے، ابوالحسن نے مسجد کے مولانا صاحب سے مناسک حج اور ہر موقعے کی دعا کے متعلق تعلیم بھی حاصل کرنا شروع کردی ہے۔ ابوالحسن نے حج کے لیے درخواست بھی جمع کرادی ہے اور اس کے ساتھ تمام رقم بھی۔

ابوالحسن نے اللہ تعالی سے نہایت خشو ع و خضوع سے دعا کی کہ اُنہیں کعبہ اور روزہ رسولﷺ کی زیارت کے لیے چُن لیا جائے مگر اچانک یہ خبر ابوالحسن کے لیے کسی صدمے سے کم نہ تھی کہ وزارتِ مذہبی امور نے حج کے حوالے سے ہونے والی قرعہ اندازی ملتوی کردی ہے، کیونکہ نجی حج ٹورآپریٹرز کی درخواست پر عدالت کی جانب سے حکمِ امتناع جاری ہوگیا ہے۔

ابوالحسن کا شکوہ ہے کہ چند لوگ اپنے مالی فوائد کے لیے حجاج کو اذیت سے دوچار کیے ہوئے ہیں۔ اب ابوالحسن ہر روز اللہ تعالی کے حضور ہاتھ پھیلائے بیٹھے ہیں کہ اُنہیں زندگی کی مُہلت ختم ہونے سے پہلے زیارتِ کعبہ اور روضہ رسولﷺ پر حاضری نصیب ہوجائے مگر عدالتی فیصلے تک ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔

وڈیو دیکھیے: ایک لاکھ 79 ہزار 210 افراد فریضہ حج ادا کریں گے

حج کے حوالے سے مُسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے ایک فارمولا طے کیا ہے جس کے تحت ہر سال ملکی آبادی کا اعشاریہ ایک فیصد افراد حج کے لیے سعودی عرب جاسکتے ہیں۔ اگر کسی ملک سے آنے والے حجاج کی تعداد کم ہو تو یہ کوٹہ کسی دوسرے ملک کو منتقل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کوٹے کا اطلاق سال 1987ء میں کیا گیا تھا اور اس پر تاحال عملدرآمد جاری ہے۔ پاکستان میں ہونے والی گزشتہ مردم شماری کی روشنی میں پاکستان سے سالانہ ایک لاکھ 80 ہزار کے لگ بھک افراد فریضہ حج ادا کرسکتے ہیں۔

ماضی میں سرکاری سطح پر حج انتظامات میں نااہلی، اقربا پروری اور بدعنوانی کی وجہ سے حجاج کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور پہلی مرتبہ مذہبی فریضہ حج کے ساتھ کرپشن کا لفظ بھی جُڑ گیا، بدنام زمانہ حج کرپشن آپ سب کو تو یاد ہی ہوگا، جسے یہاں دہرانا مقصود نہیں ہے۔

حج کے لیے پاکستانی شہری سرکاری اسکیم یا نجی حج ٹؤر آپریٹر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ سرکاری حج تقریباً نفع نقصان کے بغیر کرایا جاتا ہے، جس میں بعض اوقات سہولتیں کم ہوتی ہیں، رہائش حرم سے قدرے فاصلے پر ملتی ہے۔ جبکہ نجی ٹؤر آپریٹرز عام حج کے علاوہ فائیو یا سیون اسٹار حج کا انتظام بھی کرتے ہیں۔ مگر اس کی لاگت 3 لاکھ روپے سے لے کر 10 لاکھ روپے تک جاسکتی ہے۔ جبکہ سرکاری حج کے لیے قربانی کے بغیر 2لاکھ 70ہزار روپے اور قربانی کے ساتھ 2لاکھ 83ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ یعنی کم سے کم مالیت کے نجی حج آپریٹر اور حکومت کی حج اسکیم میں ایک لاکھ روپے سے زائد کا فرق موجود ہے۔

تصاویر دیکھیے: مناسک حج کا آغاز

یحیٰ پولانی کا کہنا ہے کہ 70ء کی دہائی کے آغاز پر اُنہوں نے اپنے کاروبار کا آغاز بطور نجی حج اور عمرہ آپریٹر کے کیا تھا، اُس وقت حج اور عمرے کے معاملات میں حکومتی مداخلت صفر تھی۔ اُس زمانے میں حج بہت سستا مگر مشکلات سے بھرپور تھا۔ ہوائی جہاز بہت بڑے نہ تھے اور زیادہ تر حجاج سمندری راستے سفر کرتے تھے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ حج انتظامات میں حکومتی مداخلت بڑھتی چلی گئی اور 80ء اور 90ء کی دہائی میں حج کے تمام تر امور سرکار کے پاس چلے گئے۔ مشرف کے دورِ حکومت میں سعودی حکومت نے لبرلائزیشن کی پالیسی کے تحت معلم کی جگہ کمپنیاں قائم کرنا شروع کیں تو پاکستان میں بھی نجی شعبے کو اس عمل میں شامل کیا گیا اور حج کے حوالے سے سرکاری اور نجی شعبے میں کوٹہ تقسیم کردیا۔

یحیٰ پولانی تسلیم کرتے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں سرکاری حج میں بہت بہتری آئی ہے اور اب حجاج کی بڑی تعداد سرکاری حج کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ اس کی ابتداء حج ڈائریکٹر ابو عاکف کی تعیناتی سے ہوئی اور موجودہ وزیرِ مذہبی امور سردار محمد یوسف نے بھی اس روایت کو قائم رکھا ہے، جس سے سرکاری سطح پر حج کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور یہ نجی حج ٹور آپریٹرز کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔

پڑھیے: حج 2018 کے لیے درخواستوں کی وصولی کا آغاز

پاکستان میں سال 2006ء میں سعودی حکومت کی ایماء پر نجی اور سرکاری حج اسکیم کا اعلان کیا گیا اور سال 2012ء تک ججاج کا ملنے والے کوٹے کا 50 فیصد سرکاری اور 50 فیصد نجی ٹؤر آپریٹرز کے پاس رہا۔ سال 2013ء میں توسیع حرم کی وجہ سے سعودی حکومت نے مقررہ کوٹے میں کمی کی تو اس وقت حکومت پاکستان حج کے حوالے سے انتظامات کو حتمی شکل دے چکی تھی اور اس نے اپنے کوٹے کو کم کرنے کے بجائے نجی شعبے کے کوٹے کو کم کرنے کا اعلان کیا، جس پر نجی حج آپریٹرز نے مزاحمت کی جس پر حکومت اور آپریٹرز کے درمیان مفاہمت کی یاداشت طے پائی جس کے تحت سال 2013ء نجی شعبہ 38 فیصد حجاج کو لے کر جائے گا جبکہ سرکاری اسکیم میں 62 فیصد حجاج جائیں گے، اسی طرح سال 2014ء کی پالیسی میں نجی شعبہ 62 فیصد حجاج لے کرگیا۔ سال 2015ء, 2016ء میں حکومت اور نجی شعبے کو 50، 50 فیصد حجاج کو سہولت فراہم کرتے رہے۔

حج ٹؤرآپریٹرز سندھ زون کے چیئرمین، محمد سعید کا کہنا ہے کہ سال 2017ء میں جاری کی جانے والی پالیسی میں حکومت نے سرکاری حج کا کوٹہ 60 فیصد اور نجی شعبے کو 40 فیصد دینے کا فیصلہ کیا، مگر جب معاملہ وفاقی کابینہ میں گیا تو وہاں بحث کے بعد نجی شعبے کا کوٹہ کم مزید کم کر کے 33 فیصد کردیا گیا اور سرکاری اسکیم کو 67 فیصد دے دیا گیا۔ کابینہ نے یہ بھی منظوری دی کہ سرکاری اسکیم میں حج اخراجات کو 2016ء کی سطح پر برقرار رکھا جائے گا اور اضافی رقم حکومت ادا کرے گی، پھر کابینہ سے منظور ہونے والی اس پالیسی کو لاگو کردیا گیا۔

اس پر ٹؤر آپریٹرز نے سندھ ہائیکورٹ کراچی بینچ، لاہور ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں متعدد درخواستیں دائر کردیں، جس میں عدالتوں کی جانب سے مختلف فیصلے آئے۔ اس پر وزارتِ مذہبی امور نے سپریم کورٹ کا رُخ کیا اور استدعا کی کہ تمام درخواستوں کو ایک ہائیکورٹ میں جمع کرکے سنا جائے، اس پر سپریم کورٹ نے تمام فریقین اور درخواست گزاروں کو 26 فروری بروز پیر طلب کر لیا ہے۔

جبکہ سندھ ہائیکورٹ سکھر بینچ میں مفتی عبدالجبار نے درخواست دی کہ، پالیسی ہی غیر اسلامی ہے، اس میں دوسری مرتبہ حج کرنے پر پابندی، حج بدل پر پابندی اور محرم کے لیے اضافی 2 ہزار ریال کی شرط اسلامی شرع کے منافی ہے، جس پر عدالت نے حکومت کو قرعہ اندازی سے روک دیا تھا۔ وزارتِ مذہبی امور کی درخواست پر معاملہ وفاقی شرعی عدالت کو منتقل کردیا گیا ہے۔

پڑھیے: غارِ ثور پر کچرا پھینکنے والے تھوڑا تو لحاظ کر لیں

ٹریول اور ٹؤرازم کی صنعت سے وابستہ یحیٰ پولانی کا کہنا ہے کہ حج ایک مذہبی فریضہ ہے مگر اس کے ساتھ ایک بڑی معیشت اور پیسے کا لین دین بھی جڑا ہوا ہے۔

حکومت جلد بازی میں کیے گئے اپنے فیصلوں کی وجہ سے خود اپنے ہی جال میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ سعودی حکومت نے 5 فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس اور پانچ فیصد میونسپل ٹیکس عائد کردیا ہے جبکہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافے نے بھی پالیسی میں طے کردہ رقم کو دھچکہ پہنچایا ہے۔ اس طرح فی حاجی اخراجات میں 44 ہزار روپے تک کا اضافہ ہوگیا ہے۔ وزارتِ مذہبی امور نے اس رقم کے حصول کے لے وزارتِ خزانہ سے 4 ارب 80 کروڑ روپے کی رقم مانگی جو کہ مسترد کردی گئی اور اب اس معاملے پر وزیر اعظم نے مختلف وزارتوں سے تجاوزیز مانگ لی ہیں جو کہ 28 فروری تک وزیر اعظم کو پیش کی جائیں گی۔

اس تمام عمل میں فائدہ تو صرف بینکوں کو ہور ہا ہے اور بینکیں یومیہ بنیادوں پر جمع رقم پر منافع کما رہی ہیں۔

کراچی میں حجاج کی خدمت کے لیے کمیونٹی سطح پر کام کیے جارہے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں میمن خدمت کمیٹی ہے جو کہ ہر سال حاجی کیمپ اور ایئر پورٹ پر عازمین حج اور پھر حجاج کی آمد پر ان کی مختلف ضروریات کا خیال رکھتی ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین حاجی مسعود پاریکھ کا کہنا ہے کہ حج سرکاری ہو یا غیر سرکاری مگر کوٹے کے کیسوں کے چکر میں حجاج رل کر رہ گئے ہیں۔ اس سال حکومت نے جلدی کی کہ حجاج کی سہولت کے لیے اچھی سے اچھی رہائشی عمارتوں، ٹرانسپورٹ اور دیگر بندوبست کردیے جائیں مگر کوٹے کے معاملے کی وجہ سے سب کچھ رک کر رہ گیا ہے۔ عدالتوں سے فوری فیصلہ نہیں آیا تو نقصان حاجیوں کو ہوگا اور حکومت نے گزشتہ 4 سال میں جو نیک نامی کمائی ہے وہ سب برباد ہو جائے گی۔

آخر حج کوٹے پر اتنا جھگڑا کیوں ہے؟

سعودی حکومت نے حرم کے اطراف بلند و بالا اور مہنگی عمارتیں کھڑی کردی ہیں۔ ان عمارتوں میں لگژری ہوٹلز بھی بنائے گئے ہیں اور شاپنگ سینٹرز بھی، مکہ کلاک ٹاور اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ اس کے علاوہ حرم کے قریبی علاقے میں موجود تمام قدیمی عمارتوں کو گرا کر جدید ہوٹلز قائم کردیے گئے ہیں، ایک ایک مغربی ہوٹل کی کئی کئی شاخیں کھل گئی ہیں۔

اس مہنگے انفرااسٹرکچر میں لوگوں کو لانے کے لیے سعودی حکومت نے سرکاری اسکیم کے علاوہ ہر حکومت پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ نجی شعبے کو بھی حجاج لانے میں سہولت دے۔ پاکستانی حج ٹؤر آپریٹرز نے سعودی عرب میں معلم کمپنیوں سے معاہدے کرلیے ہیں۔ واقفان حال کہتے ہیں جحاج کو پاکستان سے سعودی عرب میں معلم کے حوالے کرنے پر ہر حاجی کو 80 ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے اور سیون اسٹار حج میں 2 لاکھ روپے تک کی بچت ہورہی ہے، اسی لیے حاجی کوٹہ حاصل کرنے کے لیے ایک ایک دفتر میں کئی کئی ٹؤر کمپنیاں مختلف ناموں کے ساتھ کام کررہی ہیں، ان میں سے اکثر کا تو پیڈ اپ کیپٹل بھی صفر ہے یا بہت ہی کم ہے۔ اس سال وزارتِ مذہبی امور نے ایک آڈٹ کمپنی کی خدمات حاصل کی تھیں مگر وہ بھی اسی رنگ میں رنگ گئی ہے۔

ملائیشیا کی مثال اپنائی جائے

حج کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اس بات پر لڑائی کرنے کے بجائے کہ سرکاری کوٹہ کتنا ہوگا اور نجی کوٹہ کتنا ہوگا، فیصلہ درخواست گزاروں پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ سرکاری یا نجی میں سے کس کا انتخاب کرتے ہیں اور اسی تناسب سے دونوں میں کوٹے کو تقسیم کردیا جائے۔

اس حوالے سے حکومت کو ملائیشیا کی مثال کو سامنے رکھنا چاہیے جہاں تعبون حاجی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف حجاج کے لیے سہولیات کا بندوبست کرتا ہے بلکہ ایک بڑا مضبوط سرمایہ کاری فنڈ بھی ہے جو کہ ملائشیا کی معیشت میں سرمایہ کاری کو بھی فروغ دیتا ہے۔

تعبون حاجی کو قائم ہوئے 50 سال ہوچکے ہیں، ملائیشیائی عوام اس فنڈ میں اپنا نام درج کرواتے ہیں جس کے بعد اُنہیں متوقع حج ادائیگی کے سال کے بارے میں آگاہ کردیا جاتا ہے۔ لوگ ہر مہینے اپنی تھوڑی تھوڑی بچت اس میں جمع کراتے رہتے ہیں، یہ فنڈ نہ صرف رقوم محفوظ رکھتا ہے بلکہ منافع بھی دیتا ہے۔ تعبون نے سال 2016ء میں 3 ارب ملائشیئن کرنسی منافع کمایا تھا۔

پاکستان میں بھی اسی قسم کے انتظام کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومت اور نجی شعبے کو مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دینا ہوگا۔ ایک طرف حکومت کو پاکستانیوں سے ان کے حج کرنے کی خواہش کے مطابق متوقع حج کا سال مقرر کردیا جائے اور تعبون حاجی کا کوئی فنڈ قائم کیا جائے جس میں ہر سال چھوٹی چھوٹی بچت کر کے ہر مسلمان پاکستانی حج کی سعادت حاصل کرسکے اور سب سے اہم بات یہ کہ حج کی سعادت بڑھاپے کے بجائے جوانی میں حاصل کی جاسکے گی۔

سابق ڈائریکٹر حج ابوعاکف نے ایک ملاقات میں اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ ایک ایسی پالیسی بنائی جارہی ہے مگر لگتا ہے کہ ان کے عہدہ چھوڑنے کے بعد پالیسی کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔

مگر اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ٹؤر آپریٹرز اور عدالتیں جلد از جلد حج درخواستوں کے معاملے کو حل کریں تاکہ ابوالحسن جیسے لاکھوں پاکستانی اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش کو پورا کرسکیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Rizwan Bhatti Feb 26, 2018 04:42am
Good piece...