اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ سکہ شاہی کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ضروری ہے، عوام ہرگز برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ان کے نامزد وزیراعظم کو محض چند لوگ بغیر کسی وجہ کے وزارت عظمیٰ کی نشست سے نااہل قرار دے دیں۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت میں فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور العزیزیہ اسٹیل ملز کے ضمنی ریفرنسز کی سماعت کے بعد نواز شریف نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے 20 کروڑ شہری بھیڑ بکریاں نہیں، جن کے ووٹ سے منتخب ہونے والے وزیراعظم کو چار، پانچ ‘لوگ’ پارلیمنٹ سے بے دخل کردیں اور پھر پارٹی کی صدارت کے لیے بھی نااہل قرار دے دیں۔

یہ پڑھیں: پارٹی صدارت سے نااہلی کا فیصلہ میرے لیے غیر متوقع نہیں، نواز شریف

واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے پاناما پیپرز کیس کے حتمی فیصلے کی روشنی میں 28 جولائی 2017 کو نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے نااہل قرار دیا تھا۔

رواں برس 21 فروری کو سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا تھا۔

نوازشریف نے کہا کہ ‘کچھ لوگ پارٹی کی صدارت سے محروم کرتے ہیں لیکن عوام نوازشریف کو لیڈر سمجھتی ہے’۔

انہوں نے ایک مرتبہ پھر سوالات اٹھایا کہ ’وزارت عظمیٰ سے کیوں نااہل قرار دیا؟ کیا وزیراعظم نے چوری کی؟ کسی کا خون کیا؟ یا ڈاکا ڈالا تھا؟‘

یہ بھی پڑھیں: انتخابی اصلاحات کیس: نواز شریف پارٹی صدارت کیلئے نااہل قرار

نواز شریف نے کہا کہ ‘وہ وقت گزر گیا، اب پاکستان کے عوام کبھی برداشت نہیں کریں گے اور ہی کرنا چاہیے، ظلم کے آگے کھڑا ہونا بہت ضروری ہے اور جو ظلم کے آگے خاموشی اختیار کرے وہ سب سے بڑا ظالم ہوتا ہے‘۔

سابق وزیراعظم نواز شریف نے بتایا کہ سرگودھا میں ہمارے نمائندے سے شیر کا نشان چھین لیا گیا لیکن نشان چھیننے سے ہمارا نشان نہیں مٹ سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام مسلم لیگ (ن) کے بیانیے اور مؤقف کو جانتی ہے۔

واضح رہے کہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت سے قبل نواز شریف کی جانب سے درخواست پیش کی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ان کی طبیعت بخار، گلے میں خراش اور نزلے کی وجہ سے خراب ہے اس لیے سماعت آئندہ کے لیے ملتوی کردی جائے۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے درخواست منظور کرکے نواز شریف کو جانے کی اجازت دے دی۔

اس موقعے پر کیپٹن (ر) صفدر اور مریم نواز بھی موجود تھے۔

وزیراعظم اور مریم نواز نے عدالت کے احاطے میں موجود نو مںنتخب سینیٹرز کو مبارک باد پیش کی۔

مزید پڑھیں: احسن اقبال نے نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلے کے وقت پر سوال اٹھادیا

مریم نواز نے خیبر پختوںخوا میں دو سینیٹ کی نشست کے حصول پر پارٹی رہنما امیر مقام کی محنت کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔

واضح رہے کہ احتساب عدالت نے استغاثہ کے تین گواہان کو سمن جاری کیے، لندن سے آئے پاکستانی ہائی کمیشن کے ویزا سیکشن کے آفیسر عبدالعنان پر وکیل صفائی کی طرف سے جرح جاری ہے۔

احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کر لیا تھا تاہم وہ اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔

دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔

تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔

بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔

کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔

ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔

نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔

عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔

بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔

نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔

15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔

22 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف نے احتساب عدالت سے التجا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور فیصلہ سامنے آنے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ دی جائے، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی تھی۔

6 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ ملک طیب نے نواز شریف کے مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔

7 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے عائشہ حامد کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی تھی جبکہ نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا تھا۔

11 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں مزید 2 گواہان کو طلب کرلیا تھا۔

19 دسمبر 2017 کو احتساب عدالت میں 3 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے جبکہ استغاثہ کے دو مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

3 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران طلب کیے گئے دونوں گواہان کے بیانات قلمبند اور ان سے جرح بھی مکمل کی گئی تھی جس کے بعد احتساب عدالت نے 5 مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

9 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران مزید طلب کیے گئے 4 گواہان کے بیانات قلمبند کیے تھے۔

16 جنوری 2018 کو احتساب عدالت میں سماعت کے دوران 2 گواہوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے، تاہم ایک گواہ آفاق احمد کا بیان قلمبند نہیں ہوسکا تھا۔

22 جنوری کو سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف لندن میں ایون فیلڈز اپارٹمنٹس سے متعلق ریفرنس میں نیب کی جانب سے ملزمان کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کیا تھا۔

نیب کی جانب سے دائر اس ضمنی ریفرنس کی مدد سے مرکزی ریفرنس میں مزید 7 نئے گواہان شامل کئے گئے تھے جن میں سے 2 کا تعلق برطانیہ سے تھا۔

23 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران دو گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے جبکہ مزید دو گواہان کو طلبی کے سمن جاری کردیئے تھے۔

30 جنوری 2018 کو نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف دائر 3 مختلف ریفرنسز میں احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس پر نیب کے ضمنی ریفرنس سے متعلق سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے اسے سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا۔

نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے وکلا کی عدم موجودگی کی وجہ سے 6 فروری کو نیب ریفرنسز کی سماعت ملتوی کردی گئی تھی۔

بعد ازاں 13 فروری کو ہونے والی سماعت معروف قانون دان اور انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر سوگ کے باعث ملتوی کردی گئی تھی۔

یاد رہے کہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی احتساب عدالت میں حاضری سے استثنیٰ حاصل کرنے کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی جسے رواں ماہ 15 فروری کو عدالت نے مسترد کردیا تھا۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے 21 فروری کو استثنیٰ کی درخواست مسترد ہونے کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ اہلیہ کی بیماری کو ملزم کی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کا جواز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

تبصرے (1) بند ہیں

MobilyOM Mar 05, 2018 11:56am
Every one must follow the law. If peoples select the culprit as PM this is not mean he is above the law. Otherwise the society will be destroyed. In any democracy and Islamic rule nobody is above the law. Nawaz Shareef is culprit and it is proved.