پنجاب اسمبلی میں چائلڈ لیبر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 25 اے پر عمل در آمد کے لئیے قرارداد جمع کرادی گئی۔

قرارداد کو مسلم لیگ (ق) کے رکن پنجاب اسمبلی چوہدری عامر سلطان چیمہ کی جانب سے جمع کرائی گئی۔

قرارداد کے متن میں چوہدری عامر سلطان چیمہ کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے ہنگامی امداد برائے اطفال (یونیسف) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لاکھوں بچے ایسے ہیں جو کبھی سکول نہیں گئے بلکہ ان بچوں کو تو معلوم ہی نہیں کہ سکول میں ہوتا کیا ہے۔

انہوں نے پاکستان کے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت آٹھ سے سولہ سال تک کا بچہ ہر صورت سکول جانا چاہیے۔

مزید پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: ڈومیسٹک چائلڈ لیبر کے خاتمہ کا مجوزہ بل طلب

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب لیبر لاء کے مطابق 15 سال کے بعد بچہ لیبر کر سکتا ہے مگر بد قسمتی سے بھٹوں، ہوٹلوں اور ورکشاپوں میں بچوں سے لیبر کرائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قوانین ہونے کے باوجود چائلڈ لیبر پر قابو نہ پانا ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 5 سے دس سال کی عمر کے لاکھوں بچوں سے لیبر کرائی جارہی ہے۔

قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 25 اے پر عملدرآمد یقینی بنائے اور جو اس کی خلاف ورزی کرے اس کو سخت سزا دی جائے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں بچوں سے جبری مشقت پر قابو پانے کے لیے سپریم کورٹ بھی متحرک ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'کہیں بھوک سے نہ مرجاؤں'

رواں ہفتے 14 مارچ کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے اسلام آباد کی حدود تک بچوں سے جبری مشقت کے خاتمے کا حکم دیا اور ریمارکس دیئے تھے کہ ایڈووکیٹ جنرل بھیک مانگنے کے پوائنٹس اور جبری مشقت کو ختم کروا کر رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں۔

چیف جسٹس نے یہ احکامات سپریم کورٹ میں گھریلو ملازمہ طیبہ تشدد ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جاری کیے تھے۔

دوران سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ بچوں کو ٹیکا لگا کر سارا دن سڑکوں پر بٹھا دیا جاتا ہے اور بیمار بچے کو گود میں اٹھا کر بھیک مانگی جاتی ہے، یہ بچہ بڑا ہو کر کیسا شہری بنے گا جبکہ معصوم بچوں پر اس ظلم کو روکنا پورے معاشرے کا فرض ہے۔

واضح رہے کہ اس سے ایک روز قبل لاہور ہائیکورٹ نے بھی گھریلو ملازمین کے بنیادی حقوق کے تحفظ سے متعلق پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں لیبر ڈپارٹمنٹ کے سیکریٹری، یونیسیف کا ایک رکن اور 3 وکلاء شامل تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں