31 مئی 2018ء کو قومی اسمبلی دوسری بار اپنی آئینی مدت پوری کرنے جارہی ہے۔ یکم جون 2013ء کو موجودہ اسمبلی وجود میں آئی تھی۔ بدین سے تیسری مرتبہ منتخب ہونے والی اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا نے اپنے سمیت 309 منتخب ارکان سے حلف لیا اور جب 2 روز بعد نئے اسپیکر کا انتخاب مکمل ہوا تو فہمیدہ مرزا نے اسپیکر کی نشست نو منتخب اسپیکر سردار ایاز صادق کو سونپی اور واپس اپنی نشست پر آکر بیٹھ گئیں۔

پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقع تھا کہ ایک جمہوری حکومت دوسری منتخب حکومت کو اقتدار سونپ رہی ہے، یہی وجہ تھی کہ یہ سارا منظر پاکستان میں تمام جمہوری پسند قوتوں کے لیے ایک خوشگوار حیرت کا سماں تھا۔

موجودہ قومی اسمبلی کے تقریباً 5 سالوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس اسمبلی کا محض ہنی مون پیریڈ ہی اچھا گزرا اور ایک سال مکمل کرنے کے بعد اسے مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔

تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کے سامنے طویل دھرنا دیا جس نے پورے نظام کو شدید متاثر کیا۔ حکومت اور اس کے اتحادیوں کے علاوہ پیپلز پارٹی نے اس دھرنے کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیا جس کا حل نکالنے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا۔

وزیرِاعظم بننے سے اپنی نااہلی تک پہلی اور آخری بار ایسا ہوا تھا کہ میاں نواز شریف لگاتار 9 اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس کے بعد اس طرح کی حاضری انہوں نے کبھی نہیں دی۔

وہ اور ان کی حکومت جیسے ہی بحران سے نکلی تو انہوں نے اپنا سیاسی رویہ ہی تبدیل کردیا۔ اپوزیشن ارکان کے مسائل تو اپنی جگہ، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومتی ارکان کو بھی اہمیت ملنا کم ہوگئی، جس کے سبب ممبران کی اکثریت نے ایوان میں آنا چھوڑدیا اور یوں کورم کے مسائل پیدا ہونا شروع ہوگئے۔

جہاں وطنِ عزیز میں ہم منظر پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں کہ لگاتار دوسری منتخب حکومت اپنی میعاد پوری کررہی ہیں، وہیں ہم نے یہ بھی پہلی مرتبہ دیکھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی اپنی ہی جماعت کے وزراء کی مسلسل غیر حاضری پر واک آؤٹ کرگئے۔ انہوں نے اپنی نشست ڈپٹی اسپیکر کو سونپی اور ایوان سے چلے گئے۔ اگر آخری سال کے اجلاسوں پر نظر ڈالی جائے تو وہ بیورو کریسی پر کافی برہم نظر آتے ہیں۔

اکثریت کے باوجود طویل عرصے سے موجودہ حکومت کے لیے قومی اسمبلی کے اجلاس میں کورم کو پورا کرنا ایک مسئلہ رہا ہے، اپوزیشن جب اور جیسے چاہے کورم کی نشاندہی کرکے اجلاس کو روک سکتی ہے۔ قواعد کے مطابق کارروائی رکوا کر ارکان کی گنتی کی جاتی ہے اور ایک دو واقعات کو چھوڑ کر ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ کورم ٹوٹ جاتا ہے اور اجلاس کی کارروائی معطل کرنا پڑتی ہے۔

مزید پڑھیے: اسمبلی اور ارکان

اب جبکہ تواتر کے ساتھ ایک کے بعد دوسری قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کررہی ہے تو پاکستان کے عوام اس بات پر حق بجانب ہیں کہ اس قومی اسمبلی کی کارکردگی پر سوال اٹھائیں اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لیں تاکہ مستقبل میں کوتاہیوں کو نہ دہرایا جاسکے۔

جو اصل بات زیرِ بحث آنی چاہیئے وہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور منتخب نمائندے عوام کی طرف سے دیئے گئے مینڈیٹ کا احترام بھی کرتے ہیں یا نہیں؟ قانون سازی اور دیگر مسائل پر بحث کے دوران وہ ایوان میں کتنی تیاری کرکے جاتے ہیں؟ انہیں کیا ان تمام معاملات کا علم بھی ہوتا ہے جو انہیں سونپے جاتے ہیں؟ اگر نہیں بھی ہوتا تو کیا وہ تیاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟

ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اس بارے میں جانیں کہ قومی اسمبلی میں قانون سازی کا طریقہ کار کیا ہے اور اس کے مراحل کیا ہیں۔

اس وقت قومی اسمبلی میں 34 قائمہ کمیٹیاں، 3 خصوصی کمیٹیز، ایک سلیکٹ کمیٹی، 8 پارلیمانی کمیٹیاں اور 6 غیر وزارتی کمیٹیاں ہیں۔

34 قائمہ کمیٹیاں قانون سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کمیٹیوں کا قیام ایک طریقہ کار کے تحت ہوتا ہے۔ ایوان میں پارٹی پوزیشن کے تحت کمیٹی کی چیئرمین شپ تقسیم کی جاتی ہے۔ حکومت کوشش کرتی ہے کہ اہم کمیٹیاں اپنے ہاتھ میں رکھے تاکہ قانون سازی کے وقت اس کے لیے مسائل پیدا نہ ہوں۔ چوں کہ کمیٹیوں میں اکثریت حکومتی ارکان کی ہوتی ہے اس لیے حکومت کو زیادہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قانون سازی کے 2 طریقے ہوتے ہیں۔ ویسے تو زیادہ تر قانون سازی حکومت ہی کرتی ہے لیکن پارلیمانی روایات کے تحت دورانِ اجلاس ہفتے میں ایک دن نجی کارروائی کے لیے مختص ہوتا ہے۔ سینیٹ میں نجی کارروائی کا دن پیر جبکہ قومی اسمبلی میں منگل کے روز تمام ارکان قانون سازی کے لیے بل پیش کرسکتے ہیں۔

نجی ارکان کے بل پیش کرنے کی بھی ایک شرط ہے۔ پہلے یہ بل سینیٹ یا اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروایا جاتا ہے جہاں سے منظوری کے بعد اس بل کو ایجنڈے کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ ایوان میں جب یہ بل پیش کیا جاتا ہے اس وقت اگر حکومت کسی بھی رکن کے بل کی مخالفت کرتی ہے تو وہ بل بذریعہ ووٹ اکثریت کی بنیاد پر مسترد کردیا جاتا ہے، جبکہ بل کی حمایت کی صورت میں وہ بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کی طرف بھیج دیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: قومی اسمبلی کے پانچ سال: مجموعی کارکردگی کا احوال

قائمہ کمیٹی اس بل پر بحث کے بعد چاہے تو ترامیم کرکے واپس ایوان کو بھیج دیتی ہے، جس کے بعد کمیٹی سے منظور کردہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی کو یہ اختیار ہے کہ وہ قائمہ کمیٹی کے منظور کردہ بل میں ترامیم کرے یا جیسا منظور ہوکر آیا ہے اسی طرح پاس کرلے۔ بل پاس کرنے کے لیے ایوان کے اندر موجود ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔

قومی اسمبلی سے بل کی منظوری کے بعد یہ بل سینیٹ کو بھیج دیا جاتا ہے۔ ایوان بالا میں بھی قانون سازی کا یہی طریقہ کار ہے۔ اگر سینیٹ قومی اسمبلی کے پاس کردہ قانون میں ترامیم کرتی ہے اور اسے منظور کرلیتی ہے تو بل ایک بار پھر قومی اسمبلی کو بھیجا جاتا ہے۔

اس بار اگر قومی اسمبلی سینیٹ سے منظور کردہ بل جوں کا توں منظور کرلے تو ٹھیک ورنہ اگر اس میں پھر کوئی ترمیم ہوئی تو وہ بل دوبارہ سینیٹ کی طرف نہیں بھیجا جائے گا بلکہ اب اس کی منظوری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے ہوگی۔ اس وقت 13 بل مشترکہ اجلاس کی منظوری کے منتظر ہیں۔

قائمہ کمیٹی جب کسی بھی بل پر غور کرتی ہے تو اس کمیٹی میں اس رکن کو بھی خصوصی طور پر بلایا جاتا ہے جو بل کا محرک ہوتا ہے۔ بل پر متعلقہ وزارت اور وزارتِ قانون سے رائے بھی لی جاتی ہے، جب کہ ارکان بھی اس میں اپنا حصہ شامل کرتے ہیں۔ موجودہ قومی اسمبلی کے پونے 5 سالوں کے زائد عرصے میں اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا کہ قائمہ کمیٹیوں کی اکثریت نے اپنی رپورٹیں وقت پر جمع نہیں کروائیں۔

اسی طرح ایوان میں ہر وقت ہر کسی کو بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، اگرچہ یہ صوابدید اسپیکر کی ہوتی ہے لیکن 2 مواقع ایسے ہوتے ہیں جب رکن کھل کر اپنے حلقے کے بارے میں اور سیاسی معاملات پر بات کرسکتا ہے۔ وہ 2 مواقع مشترکہ اجلاس سے صدر کے خطاب پر بحث اور بجٹ بحث ہوتی ہے۔

مگر حیران کن طور پر صدر ممنون حسین کے مشترکہ اجلاس میں کیے گئے خطاب پر گزشتہ 2 سالوں سے بحث نہیں ہوسکی اور بغیر کسی بحث کے اجلاس سمیٹ دیا گیا۔ اسی طرح گزشتہ بجٹ میں اپوزیشن ارکان کو اپنی بات کرنے کا موقع نہیں ملا، کیونکہ اپوزیشن اپنی تقاریر براہِ راست نشر کرنے پر اور حکومت نہ کرنے پر بضد تھی۔

اسی طرح ان 5 سالوں کے دوران ہم نے دیکھا کہ مختلف وزارتوں سے جو سوالات کیے جاتے انہیں پڑھ کر قہقہے لگانے کو جی چاہتا۔ کسی رکن نے پوچھا کہ اسلام آباد میں آٹے کی کتنی چکیاں ہیں، کسی نے پوچھا کہ حجام کی کتنی دکانیں ہیں، فلاں سیکٹر میں فلاں درخت کتنے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وزارتوں کی جانب سے اگر ایوان کو غلط جوابات دیے بھی جائیں تو کبھی اس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جاتا کیوں کہ کوئی تیاری ہو تو نیا سوال اٹھے نا۔

مزید پڑھیے: قومی اسمبلی کے چار سال، 69 ارکان نے کارروائی میں حصہ نہیں لیا

پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ رواج ہے کہ کسی بھی شعبے میں ملازم بھرتی کرنے کے لیے اسی شعبے کی تعلیم اور تجربہ لازمی ہوتا ہے، لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ ملک کے 20 کروڑ عوام کے نمائندہ ایوان کے لیے اس طرح کی کوئی شرط نہیں ہے، کیونکہ جن سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس شرط کو نافذ کریں، وہی سیاسی جماعتیں سب سے بڑھ کر اس اصول کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی ہیں۔

سیاسی جماعتوں کو تو چاہیے کہ پارلیمنٹ کو ایک دکان میں تبدیل کرنے کے بجائے ایک ادارے کی شکل دینے کی کوشش کریں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوتا۔ جب بھی قومی یا صوبائی اسمبلی کے لیے سیاسی جماعتیں امیدوار نامزد کرتی ہیں تو پارلیمانی امور جاننے کی کوئی شرط نہیں رکھی جاتی، کسی سیاسی نظریے کی تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی، امیدوار کی اہلیت اس کے طاقتور اور دولت مند ہونے سے پرکھی جاتی ہے۔ جہاں ایک طرف پاکستان کا سیاسی نظام بیرونی دباؤ کا شکار ہوتا ہے وہیں اندرونی بگاڑ کی ذمہ دار بھی سیاسی جماعتیں خود ہوتی ہیں۔

سیاسی جماعتوں نے گزشتہ 10 سالوں کے دوران پارلیمانی امیدواروں کے لیے تربیت کا مناسب بندوبست نہیں کیا، پارلیمانی اخلاقیات اور روایات کے بارے میں آگہی کے لیے کبھی کوشش تک نہیں کی گئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب اپوزیشن لیڈر یا وزیرِاعظم تھیں تو انہوں نے ایک اچھی روایت ڈالی تھی، وہ اپنی پارٹی کے تمام ارکان کی حاضری یقینی بناتی تھیں، لیکن باقی سیاسی ادوار میں ایسا نظر نہیں آیا۔

میاں نواز شریف اور ان کی حکومت کی لاتعلقی نے قومی اسمبلی کی کارکردگی کو شدید نقصان پہنچایا۔ ان کے دورِ حکومت میں اپنے ارکان کی حاضری تو درکنار وزراء نے بھی ایوان میں آنا چھوڑ دیا۔

اس ساری صورتحال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاسی جماعتیں نہ صرف قانون سازی کرتیں، بلکہ پارٹی ممبران کو اپنی جماعتوں کے اندر بھی اصلاحات کرنی چاہیئں تھیں، لیکن اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی۔

موجودہ حکومت نے تمام پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ مل کر طویل مشاورت کے بعد 8 انتخابی قوانین کو یکجا کرکے ایک الیکشن ایکٹ پاس کیا لیکن اس میں سیاسی جماعتوں کی اصلاحات کی طرف کوئی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی۔

پاکستان میں اس وقت سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت اور جمہوری رویے انتہائی کم سطح پر نظر آتے ہیں، قیادت جو کچھ کہے اس پر آمنا صدقنا کہا جاتا ہے۔ نتیجے میں اہلیت سے خالی درباریوں، دولتمندوں اور طاقتوروں کو منتخب ایوانوں میں آنے کا موقع ملتا ہے اور عوام کے لیے قانون سازی کرنا اور عوام کی زندگی کو آسان بنانا ان کی ترجیح نہیں ہوتی۔

تبصرے (0) بند ہیں