اسلام آباد: حکومت نے گزشتہ برسوں کی طرح اگلے مالی سال کے بجٹ میں بھی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے لیے صرف 2 ارب 70 کروڑ روپے مختص کیے جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں محض 87 کروڑ روپے زیادہ ہے۔

واضح رہے کہ وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے گزشتہ سال اعتراف کیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکمراں جماعت کے نزدیک سائنسٹیفک ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔

یہ پڑھیں: لیگی حکومت کا 59 کھرب 32 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش

دو برس قبل سیکریٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کامران قریشی نے بھی انہی جذبات کا اظہار کیا تھا۔

وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو سائنس ٹیلنٹ فریمنگ اسکیم فار ینگ اسٹوڈنٹ منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے 41 کروڑ22 لاکھ روپے درکار ہیں جبکہ پرزیژن میکینکس پروگرام کے تحت جاری 20 چھوڑے بڑے منصوبوں کی تکیمل کے لیے 66 کروڑ 40 لاکھ روپے کی ضرورت ہے جبکہ حکومت نے صرف 87 کروڑ روپے اضافی مختص کیے۔

دوسری جانب وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے حکومت سے ایک درجن سے زائد منصوبوں کے لیے 7 ارب 44 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا ہے۔

ان منصوبوں میں نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی، پاک کوریا ٹیسٹنگ لیب فار سولر اور پاکستان نیشنل ایکریڈیٹیشن کونسل فار ڈیجٹیل ایکریڈیٹیشن سمیت دیگر سائنٹیفک لیب کی اپ گریڈیشن شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن جماعتوں کا بجٹ اجلاس سے واک آوٹ

وزارت کو نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کی تعمیر کے لیے 3 ارب روپے جبکہ کمپیٹیٹو ریسرچ پروگرام کی تکمیل کے لیے 2 ارب روپے درکار ہیں۔

وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ایک عہدیدار کے مطابق حکومت کے لیے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کوئی خاص شعبہ نہیں اور اسی وجہ سے بجٹ میں کوئی خاص رقم مختص نہیں کیا جاتی جس کے نتیجے میں سائنسٹیفک رسرچ کے میدان میں ملک کا شمار عالمی رینکنگ کےاعتبار سے انتہائی کم درجے پر ہوتا ہے۔

حکام کے مطابق ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے فنڈز کمی کا آغاز 08-2007 سے ہوا جس کے بعد سائنٹیفک ریسرچ کے متعدد منصوبے متاثر ہوئے۔

مزید پڑھیں: لیگی حکومت کا بجٹ پیش کرنا ’پری پول ریگنگ‘ کے مترادف ہے، شیریں مزاری

انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے شبعے میں عدم دلچسپی کے باعث متعدد منصوبے اپنے درمیانی مدت میں ہی بند ہوگئے جبکہ سائنس دان بہت محنت کررہے تھے، جس کے بعد سائنسی ماہرین نے بیرونی ملک کا رخ کیا اور بعض اندورن ملک میں سے ہی ملنے والے بہتر مواقع کی طرف راغب ہو گئے۔

اس حوالے سے عہدیدار کا کہنا تھا کہ پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز، پاکستان کونسل فار رینیوایبل انرجی ٹیکنالوجیز اور پاکستان کونسل فار سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ سمیت دیگر 16 شعبہ جات کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔


یہ خبر 28 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں