کل کی بجٹ تقریر بالکل ویسے ہی تھی جیسے کہ پاکستان کا معاشی انتظام و انصرام ہے: بیچ کمرے کے کھڑا ایک اکیلا شخص سیاسی شور ہنگامے کے درمیان اپنی بات کہنے کی جدوجہد کرتا ہوا۔

یہ صورتحال اب بہت عرصے سے معمول بن چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اصلاحات کیوں سنجیدگی سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔ اس بجٹ میں دو چیزیں نہایت واضح ہیں۔ پہلی، حکومت کی سخت کمزوریاں، اور دوسری، ترقیاتی اخراجات کے بجائے جاری اخراجات کی طرف جھکاؤ۔ یہ دونوں آپس میں منسلک ہیں۔ ہم ایک ایسی حکومت دیکھ رہے ہیں جو اپنی حکمرانی کو لاحق سخت خطرات میں گھری ہوئی ہے، جس کی وجہ سے وہ ہر ممکن حد تک خصوصی مفادات کے سامنے جھکنے پر مجبور ہے۔

اس بجٹ کی سب سے اہم خاصیت اس کا عدم شفاف ٹیکس منصوبہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے حکومت کو وسائل کے بارے میں زیادہ فکر نہیں ہے جبکہ زیادہ توجہ فائدے پہنچانے اور رقومات مختص کرنے پر دی گئی ہے۔ محصولات میں 18 فیصد اضافہ جو کہ 750 ارب روپے بنتا ہے، اس میں سب سے بڑا اضافہ بالواسطہ محصولات مثلاً پیٹرولیم لیوی اور مواصلات پر ٹیکس ہے۔

پڑھیے: 59 کھرب 32 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش

ایف بی آر کے ٹیکس 500 ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں جو کہ سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی، اور انکم ٹیکس کے درمیان تقریباً برابر تقسیم ہیں۔ ان تمام زمروں میں زیادہ ریلیف دیے جانے کو مدِنظر رکھتے ہوئے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے جیسے ان اضافوں کی وجہ ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے ٹیکس کا دائرہ کار وسیع ہونا، اور مہنگائی اور روپے کی قیمت میں کمی ہے (جس کی وجہ سے امپورٹ کرتے وقت سیلز ٹیکس اور کسٹمز ڈیوٹی میں اضافہ ہوجاتا ہے)۔ مختصر الفاظ میں کہیں تو ٹیکس منصوبہ امید پر تیر رہا ہے جبکہ اخراجات کو تفصیلی توجہ دی گئی ہے۔

حکومت اپنی حکمرانی کو لاحق سخت خطرات میں گھری ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ ہر ممکن حد تک خصوصی مفادات کے سامنے جھکنے پر مجبور ہے۔

یہ متوقع تھا۔ جس حکومت نے یہ بجٹ پیش کیا ہے، وہ شاید اس بجٹ پر عمل کرنے والی حکومت نہ ہو۔ چنانچہ یہ طے ہے کہ اس بجٹ کو درمیانی مدت میں کافی تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی۔ کئی تجاویز قابلِ تعریف ہیں، مثلاً خام مال کی درآمد پر کسٹمز ڈیوٹیوں میں کمی اور ایسے دیگر اقدام۔ مگر اس بجٹ کی بنیادی کمزوری یہ ہے کہ بلند سطح پر موجود جاری اخراجات کو پورا کرنے کے لیے محصولات کی وصولی بھی اتنی ہی بلند کرنی ہوگی۔ ترقیاتی کاموں کے بجائے وسائل کو اخراجات کی جانب موڑنے سے فنڈنگ ایک ذریعے تک محدود رہ جاتی ہے، بینکوں سے قرضوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے (625 ارب روپے کا اضافہ)، جبکہ صوبائی سرپلس میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے: بجٹ میں ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کا شعبہ حکومتی ترجیحات سے محروم

اگر اس سب کی بنیاد میں موجود مفروضے حقیقت ثابت ہوتے ہیں تو اس سے اشیاء کی کھپت میں کامیابی سے اضافہ ہوگا اور جس کے ترقی (اور درآمدات) پر مثبت اثرات ہوں گے۔

پر اگر یہ مفروضے غیر حقیقی ثابت ہوئے، اور زیادہ امکان بھی یہی ہے، تو اگلی حکومت کو انہیں خاصی حد تک تبدیل کرنا ہوگا، جب میں ممکنہ طور پر متوسط طبقے کے گھرانوں اور صنعتوں کو دیے جانے والے ریلیف واپس لینا شامل ہے۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 28 اپریل 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں