پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی محمد خان نے الزام عائد کیا ہے کہ قومی اسمبلی میں مالی سال 19-2018 کے بجٹ اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی جانب سے ان کی جماعت کے رہنما مراد سعید کو گیالیاں دی گئیں، لہذا ان کا اس پر ردِ عمل بلکل درست تھا۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'دوسرا رُخ' میں گفتگو کرتے ہوئے علی محمد خان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی غیرت مند شخص اس طرح کی زبان برداشت نہیں کرسکتا جو مراد سعید کے لیے استعمال کی گئی اور ان کی جگہ وہ خود بھی ہوتے تو ایسا ہی کرتے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم اسمبلی میں گالیاں سننے نہیں آتے اور ہم صرف ایک غیر متعلقہ شخص کو وزیر خزانہ بنانے پر پرامن احتجاج ریکارڈ کروا رہے تھے جو اپوزیشن کا قانونی اور آئینی حق ہوتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیں کیونکہ ایوان میں ایسے الفاظ کا استعمال کیا جانا بہت ہی غیر مناسب عمل ہے۔

پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف 'ووٹ کو عزت' دو کی بات کرتے ہیں، مگر اصل میں ان کی جماعت میں اپنے لوگوں کو عزت دی جاتی ہے اور اس کی واضح مثال ایک منتتخب وزیر رانا افضل کی جگہ مفتاح اسمٰعیل جیسے غیر منتخب رکن اسمبلی سے بجٹ پیش کروایا جانا ہے۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن جماعتوں کا بجٹ اجلاس سے واک آوٹ

انہوں نے مزید کہا کہ بجٹ پیش کرنے کا حق رانا افضل کا تھا کیونکہ انہوں نے 5 سال اس وزارت کے لیے کام کیا ہے، مگر بدقسمتی سے ایک محنتی شخص کو نظر انداز کیا گیا۔

خیال رہے کہ مفتاح اسمٰعیل کو بجٹ اجلاس سے چند گھنٹے قبل وزیرِ خزانہ مقرر کیے جانے پر قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر سے قبل اپوزیشن اجماعتوں کا سخت ردِ عمل سامنے آیا تھا اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے تمام جماعتوں کی جانب سے اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا۔

تاہم، بجٹ تقریر کے دوران صورتحال اُس وقت گشیدہ ہوئی جب اپوزیشن اراکین نے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب بڑھنے کی کوشش کی تاکہ انہیں بجٹ پیش کرنے سے روک سکیں، لیکن رکن اسمبلی عابد شیر علی کی قیادت میں لیگی اراکین نے وزیر خزانہ کے گرد حفاظتی دائرہ بنا کر اپوزیشن اراکین کی پیش قدمی روک دی۔

اس دوران پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی مراد سعید اور عابد شیر علی کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی جس پر پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی شہریار آفریدی سے ہاتھ چھڑا کر ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ (ن) ارکان کی جانب بڑھے لیکن سیٹ پر بیٹھے عارف علوی نے انہیں پکڑ لیا اور علی محمد خان اور شہریار آفریدی انہیں واپس نشست پر لے گئے۔

بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن کے اراکین احتجاج کرتے رہے اور مراد سعید سمیت دیگر اراکین اسمبلی نے مفتاح اسماعیل کے ڈائس کے سامنے بجٹ کی کاپیاں پھاڑ دیں۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے چھٹے اور آخری بجٹ سے چند گھنٹے قبل مشیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے وفاقی وزیر خزانہ کا حلف اٹھالیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ تقریر سے چند گھنٹے قبل مفتاح اسمٰعیل وزیرِ خزانہ مقرر

نئے وفاقی وزیر خزانہ کے پاس قومی اسمبلی یا سینیٹ میں سے کوئی نشست نہیں ہے تاہم انہیں وفاقی وزیر کا عہدہ آئین کے آرٹیکل 91 کی شق 9 کے تحت دیا گیا۔

اس قانون کے مطابق حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی رکن اسمبلی بننے کے اہل شخص کو 6 ماہ کے لیے وزارت کا عہدہ دے سکتی ہے تاہم 6 ماہ کے بعد انہیں اپنے عہدے کو برقرار رکھنے کے لیے انتخابات لڑ کر قومی اسمبلی یا سینیٹ کی نشست لینی ہوگی۔

یاد رہے کہ سابق وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کو آمدن سے زائد اثاثے بنانے سے متعلق ریفرنس کا سامنا ہے اور اپوزیشن کے دباؤ پر وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے اور تا حال واپس نہیں آئے ہیں۔

17 نومبر کو اعلیٰ حکومتی سطح پر وفاقی وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کو ان کے عہدے سے تبدیل کیے جانے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔

اسحٰق ڈار کی جانب سے 22 نومبر 2017 کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو رخصت کی درخواست دی گئی تھی جسے منظور کر لیا گیا تھا۔

رخصت منظور ہونے کے ساتھ ساتھ ان سے وزارتِ خزانہ کی ذمہ داریاں بھی واپس لے لی گئیں تھیں، جس کے بعد کے بعد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے وزارتِ خزانہ اور اقتصادی امور کا اضافی چارج لے لیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں