افغانستان کے دارالحکومت کابل کے دو پولیس اسٹیشنز میں خود کش دھماکوں کے نتیجے میں کم ازکم 7 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے۔

اے پی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے وزیرداخلہ واعظ احمد برمک کا کہنا تھا کہ حملوں میں مجموعی طور پر 8 خود کش بمباروں نے حصہ لیا جن میں ایک حملے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ (داعش) اور دوسرے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کر لی ہے۔

واعظ برمک نے کہا کہ پہلا حملہ کابل کے مغربی علاقے میں ہینڈ گرینیڈ سے ہوا جس کے بعد حمہ آور نے خود کو اڑا دیا اور دوسرے نے پولیس اسٹیشن کے کے مختلف حصوں میں آگ لگائی جبکہ تیسرے کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حملے میں دو پولیس اہلکاروں کو ہلاک اور دو کو زخمی کردیا گیا جبکہ زخمیوں میں شہری بھی شامل ہیں۔

دوسرا حملہ سٹی سینٹر میں جہاں ایک خود کش حملہ آور نے دیگر چار کو راستہ بنانے کے لیے پولیس اسٹیشن کے دروازے کو اڑا دیا۔

وزیرداخلہ واعظ احمد برمک کا کہنا تھا کہ ‘2 یا 3’ مزید حملہ آور قریبی عمارت میں چھپے ہوئے تھے جن سے سیکیورٹی فورسز کا فائرنگ کا تبادلہ ہوا تاہم حملے میں ہلاکتوں کے حوالے سے کوئی تعداد سامنے نہیں آئی ہے۔

کابل میں ایمبولینس سروس کے سربرا عصام کا کہنا تھا کہ دونوں حملوں کے بعد 6 افراد کو ہسپتال منتقل کردیا گیا اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔

وزارت صحت کے ترجمان واحد مجروح کا کہنا تھا کہ حملے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 7 ہوگئی ہے اور 17 افراد زخمی ہیں۔

وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانس نے حملے کے حوالے سے بتایا کہ سات گھنٹے گزر جانے کے بعد حالات کو کنٹرول کر لیا گیا۔

قبل ازیں طلوع نیوز کی رپورٹ ایک رپورٹ میں افغان وزیر داخلہ کے ترجمان نجیب دانش کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ پہلا حملہ کابل میں دشت ارچی کے علاقے میں پولیس ہیڈکوارٹرز کی عمارت کے قریب ہوا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ پہلے دھماکے کے فوری بعد کابل کی شاہراہ ناؤ کے علاقے میں قائم پولیس ہیڈکوارٹرز کے کمپاؤنڈ میں دو دھماکے ہوئے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: بھارت کے 7 انجینئرز کو اغوا کرلیا گیا

وزیر داخلہ کے ترجمان نے بتایا کہ اسپیشل فورس یونٹ (ایس ایف یو) کو دھماکے کے مقام کی جانب روانہ کردیا گیا ہے اور جلد صورت حال کنٹرول میں آجائے گی۔

دوسری جانب خاما نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ کابل میں ہونے والے حملوں میں سے ایک کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی۔

رپورٹ کے مطابق داعش نے عربی میں جاری بیان میں دشت ارچی میں ہونے والے حملے کی تصدیق کی اور دعویٰ کیا کہ یہ حملہ ان کے خود کش بمباروں کی جانب سے کیا گیا۔

واضح رہے کہ اب تک مقامی میڈیا نے ان حملوں میں کسی بھی شخص کے ہلاک یا زخمی ہونے کے حوالے سے تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: اہم ہائی وے پر قبضے کیلئے فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپیں

تاہم افغان میڈیا نے رپورٹس میں سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ دشت ارچی میں ہونے والے حملے میں 6 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش کے مطابق حملہ آوروں نے عمارت میں پوزیشن لے رکھی ہے جن کے خلاف ایس ایف یو کا کلئیرنس آپریشن جاری ہے۔

علاوہ ازیں کابل میں قائم ایک ہسپتال کی انتظامیہ نے بتایا کہ 6 زخمیوں کو علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جس میں سے ایک شخص زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگیا۔

مدرسے پر حملے میں طالبان جنگجو ہلاک ہوئے، وزارت دفاع

دوسری جانب خاما نے اپنی علیحدہ رپورٹ میں افغانستان کی وزارت دفاع کے حوالے سے بتایا کہ وزارت کو موصول ہونے والی انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق 2 اپریل کو افغانستان کے شمالی شہر قندوز کے ضلع ارچی میں مدرسے پر کی جانے والی فضائی کارروائی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں طالبان کے متعدد کمانڈر اور جنگجو شامل تھے۔

وزارت دفاع کے بیان میں مزید کہا گیا کہ طالبان کے کوئٹہ شوریٰ کے رکن ملا بریال بھی مذکورہ حملے میں زخمی ہونے والوں میں شامل تھے۔

تاہم وزارت دفاع نے تصدیق کی کہ مذکورہ حملے میں 9 شہری جاں بحق اور 55 زخمی بھی ہوئے لیکن وزارت نے دعویٰ کیا کہ شہریوں کی ہلاکتیں طالبان کو انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیے جانے کے باعث ہوئیں۔

مزید پڑھیں: افغان فضائیہ کے حملے میں مدرسے کے 30 بچے جاں بحق ہوئے، اقوام متحدہ

خیال رہے افغان وزارت دفاع کا یہ بیان اقوام متحدہ کی ان رپورٹس کا رد عمل یہ جس میں اقوام متحدہ نے تصدیق کی تھی کہ افغان فضائیہ کے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے گزشتہ ماہ مقامی مدرسے پر راکٹ اور ہیوی مشین گنوں سے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 30 بچوں سمیت 36 افراد جاں بحق جبکہ 71 زخمی ہو گئے تھے۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے اہنی رپورٹ میں آزاد ذرائع کا حوالہ بھی دیا، جن کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 200 سے زائد بتائی گئی۔

اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 2 اپریل کو افغانستان کے شمالی شہر قندوز کے ضلع ارچی میں مذہبی نوعیت کی تقریب جاری تھی کہ افغان فضائیہ نے حملہ کردیا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں بچوں کی تعداد 81 تھی جبکہ مجموعی طور پر 107 افراد حملے سے متاثر ہوئے تھے۔

اقوام متحدہ کے مطابق تفتیش کاروں نے 107 متاثرین کی تصدیق کی ہے تاہم آزاد ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات میں جاں بحق ہونے والے کی تعداد 200 سے زائد بتائی گئی ہے تاہم اس ضمن میں حمتی اعداد وشمار کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

رپورٹ میں اقوام متحدہ نے واقعے پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مزید تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: اقوام متحدہ کی بمباری میں شہریوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ افغان حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ حملے کا مقصد طالبان کے اسپیشل گروپ ‘ریڈ یونٹ’ کے ارکان کو ہلاک کرنا تھا جو قندوز شہر میں حملے کی پلاننگ بنا رہے تھے اور 2015 سے طالبان کے زیر اثر ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 90 سے زائد عینی شاہدین سے واقعے سے متعلق انٹرویو کیے گئے، انہوں نے بتایا کہ جنگی ہیلی کاپٹروں نے ضلع ارچی کے معروف مدرسے میں منعقدہ ‘دستار بندی’ کی تقریب پر راکٹ داغے اور ہیوی مشین گنوں سے فائرنگ کی۔

مذکورہ واقعے کے بعد افغان حکومت نے شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے واقعے کی تحقیقات کا حکم بھی دیا لیکن تحقیقات کے کوئی نتائج تاحال پیش نہیں کیے جا سکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں