چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پشاور میں ہونے والے دہشت گردی کے نتیجے میں بچوں کے قتل عام کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم دیتے ہوئے دو ماہ کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ کی پشاور رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں پشاور ہائی کورٹ کے ججوں پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سانحہ اے پی ایس کیس کی سماعت کی جہاں انھوں نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم دیا اور کہا کہ دو ماہ کے اندر اس حوالے سے رپورٹ پیش کی جائے۔

چیف جسٹس نے سماعت کے دوران والدین کی جانب سے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ پر اعتراضات پر اظہار برہمی کیا اور ایڈوکیٹ فضل خان کو کورٹ روم چھوڑنے کی ہدایت کردی۔

جسٹس ثاقب نثٓار نے کہا کہ آپ میرے سامنے میرے ججوں کے بارے میں ایسا کچھ نہیں کہہ سکتے۔

چیف جسٹس نے پشاور میں ہسپتالوں صورت حال پر سماعت کے دوران سیکریٹری صحت سے تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ ایبٹ آباد ہسپتال کی حالت خراب ہے۔

سیکریٹری صحت نے کہا کہ صوبے میں اس وقت 592 ہسپتال ہیں، 1504 صحت کی سہولیات اور اے کیٹگری کے 7 ہسپتال موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کی پشاور رجسٹری میں مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے شہر میں بند راستے کھولنے کا بھی حکم دیا اور کہا کہ 48 گھنٹوں میں غیر ضروری چیک پوسٹیں ختم کریں۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ باڑہ گیٹ، شامی روڈ نا کے ختم ہوگئے ہیں اور جو ناکے ختم نہیں ہوئے ہیں ان کو ختم کریں۔

انھوں نے چیک پوسٹیں ختم کرنے کے بھی احکامات جاری کیے جس پر چیف سیکریٹری نے کہا کہ چیک پوسٹ کی ضرورت ہے، ابھی بھی سیکیورٹی الرٹ ہے تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ جہاں ضرورت ہے وہاں رکھیں مجھے وہ جگہ بتائیں، صرف چند چیک پوسٹیں ہونی چاہیے، جو دیواریں بنی ہیں وہ گرائیں، غیر ضروری چیک پوسٹیں ہٹائیں اور لوگوں کے لیے راستے کھولیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Khan May 10, 2018 02:14am
احسن اقدام ھے خیرمقدم کرتے ھیں ارمی پبلک سکول کے قتل عام ایک اندوہناک سانحہ تھا شہیدوں کے والدین عرصہ دراز سے تحقیات کا جائز مطالبہ کررہے ھیں کمیشن بناکر انکی داد رسی ھو سکتی ھے لواحقین کے وکیل کے ساتھ چیف جسٹس کا رویہ نامناسب تھا امید ھے کہ لواحقین کو انصاف ملیگا اور زمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائیگا یاد رہے کہ ارمی پبلک سکول پشاور کے واقعے پر لواحقین کے شدید تحفظات ھیں جن کو دور کرنا لازمی ھے