پاکستان اور امریکا کے سفارتی تعلقات ہمیشہ سے ہی اہم رہے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک امریکا سے تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم مرکز اور محور رہے ہیں اور یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے کہ پاکستان امریکی تعلقات کی بنیاد پر اپنی خارجہ پالیسی کو مرتب کرتا رہا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ امریکی دباو پر پاکستان متعدد فوجی اور سیاسی اتحادوں میں شریک ہوتا رہا ہے۔

جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو امریکی ایما پر پاکستان نے افغان جہاد میں اہم کردار ادا کیا اور پھر 9/11 کے حملوں کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے اس کا ساتھ دیا۔ مگر آج کل پاکستان کی چین کے ساتھ اقتصادی راہداری منصوبے اور روس کے ساتھ بڑھتی قربت نے امریکا اور پاکستان کے درمیان سفارتی فاصلوں میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے۔ جس کا اظہار امریکا کی جنوبی ایشیاء کے لیے پالیسی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹس سے بھی ہوتا ہے۔

سفارتی فاصلوں میں جتنی دوری آج ہے وہ پاک امریکا تعلقات میں کبھی بھی نہیں رہی۔ ایک طرف امریکا نے پاکستان کے سفیروں پر پابندیاں عائد کیں تو پاکستان نے بھی جواب میں امریکی سفیروں کو دی گئی اضافی مراعات واپس لے لی ہیں۔

امریکا نے یکم مئی کو پاکستانی سفیروں پر پابندی عائد کی مگر اس میں 10 دن کی توسیع کردی گئی اور مدت ختم ہونے پر پابندی کا اطلاق کردیا گیا۔ جس کے تحت پاکستانی سفیروں کی نقل و حرکت 25 کلو میٹر تک محدود کردی گئی ہے۔ عام طور پر امریکی اقدامات کے نتیجے میں پاکستان وہی عمل نہیں دہراتا مگر، اس مرتبہ امریکا کو جواب دینے کے لیے پاکستان نے بھی امریکی سفیروں کو دی گئی اضافی مراعات واپس لے لی ہیں۔

پاکستان نے امریکی سفیروں پر جو پابندیاں لگائی ہیں وہ کچھ یہ ہیں۔

  • ایک سے زائد پاسپورٹ رکھنے پر پابندی،
  • نان ڈپلومیٹک نمبر پلیٹ کا استعمال بند،
  • کرائے کی عمارت لینے اور جگہ کی تبدیلی کے لیے اجازت نامہ،
  • سفارتخانے کی رہائشی محفوظ مقامات پر بغیر این او سی کے ریڈیو مواصلاتی آلات نہیں لگاسکتے،
  • سفارتخانے کی گاڑیوں پر غیر سفارتی نمبر پلیٹ کے استعمال اور کرائے پر لی گئی گاڑی پر سفارتی نمبر پلیٹ کے استعمال پر پابندی
  • کالے شیشے کی گاڑی استعمال کرنے پر پابندی، اور
  • بائیو میٹرک تصدیق کے بغیر موبائل فون سم کا اجراء منع کردیا گیا ہے

مزید پڑھیے: پاک ۔ امریکا تعلقات ایک لمحے میں ختم نہیں ہوسکتے، مشیر ڈونلڈ ٹرمپ

ایسے حالات میں جب پاکستان اور امریکا کے تعلقات تاریخ کی کم ترین سطح پر ہیں اور تناو بہت زیادہ ہوچکا ہے، تو ضرورت اس بات کی تھی کہ امریکا میں کوئی ایسا سفیر مقرر کیا جائے، جو تجربہ کار ہو، اور معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ مگر اس کے برعکس وفاقی حکومت نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے پاکستان میں لوگوں کو حیران اور کسی حد تک پریشان بھی کردیا ہے۔ وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے کاروباری شراکت دار اور ایک نوجوان علی جہانگیر صدیقی کو امریکا میں سفارت کاری کے لیے منتخب کیا ہے۔

علی جہانگیر صدیقی کا اس سے قبل عوامی سطح پر کوئی پروفائل موجود نہیں ہے۔ علی جہانگیر صدیقی کا تعلق حیدرآباد کے کاروباری گھرانے سے ہے اور ان کے خاندان کا کاروبار ان کے والد جہانگیر صدیقی گروپ یا جے ایس گروپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس گروپ نے زیادہ تر دولت اسٹاک مارکیٹ سے کمائی ہے جبکہ خاندانی کاروبار کو کارپوریٹ میں تبدیل کرکے متعدد مالیاتی اور پیداوار ادارے گروپ کا حصہ ہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے وزیرِاعظم بننے کے بعد پہلے علی جہانگیر صدیقی کو اپنا مشیر مقرر کیا اور پھر امریکا میں بطور سفیر تعیناتی کا حکم جاری کردیا اور چند روز قبل ہی امریکا نے علی جہانگیر صدیقی کی تعیناتی کی توثیقی دستاویز پاکستان کو ارسال کردی ہیں جس کے بعد امید یہ ہے کہ چند روز میں ہی علی جہانگیر بطور سفیر اپنی ذمہ داری سنبھالنے امریکا روانہ ہوجائیں گے۔

ایک ایسے غیر معروف اور نوجوان فرد کی امریکی سفیر تعیناتی کے اعلان نے بطور صحافی مجھے بھی حیران کیا تھا۔ کیونکہ اگر امریکا میں تعینات سفراء کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو تجربہ کار اور منجھے ہوئے بیوروکریٹس، اعلی عہدوں سے ریٹائرڈ فوجی افسران، کہنہ مشق سیاستدان اور ٹیکنوکریٹس کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے اور ایسے ہی فیصلے امریکا کی جانب سے بھی دیکھنے کو ملے ہیں کہ امریکا نے بھی ہمیشہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ (امریکی محکمہ خارجہ) کے افسران کو پاکستان میں سفیر تعینات کیا ہے۔

پاکستان کی جانب سے امریکا میں تعینات سفراء کی فہرست کا آغاز قائدِاعظم محمد علی جناح کے ساتھی اور بڑی کاروباری شخصیت ایم اے ایچ اصفہانی کے نام سے ہوتا ہے۔ اس فہرست میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شہباز یعقوب خان، لیفٹیننٹ جنرل اعجاز اعظم، ایئر چیف مارشل ریٹائرڈ ذوالفقار علی، جنرل ریٹائرڈ جہانگیر کرامت، میجر جنرل ریٹائرڈ محمد علی درانی جیسے اعلی فوجی افسران کے علاوہ محمد علی بوگرہ، سیدہ عابدہ حسین، ملیحہ لودھی، حسین حقانی، شیری رحمٰن جیسی قد آور سیاسی شخصیات اور ٹیکنوکریٹس کے علاوہ دفتر خارجہ کے منجھے ہوئے سفارت کار بھی نظر آتے ہیں۔

مزید پڑھیے: الزام تراشیوں کے باوجود امریکا، پاکستان کے ساتھ ’نئے تعلقات‘ کا خواہاں

اگر گزشتہ 2 ادوار کی بات کی جائے تو پاکستان نے امریکا کے ساتھ سفارت کاری مکمل طور پر دفترِ خارجہ کے حوالے کر رکھی تھی اور آخری 2 سفارت کار جلیل عباس جیلانی اور اعجاز چوہدری کا تعلق دفتر خارجہ سے ہی تھا، اور سچ پوچھیے تو ان قد آور شخصیات کے درمیان علی جہانگیر صدیقی کا نام بالکل بھی نہیں جچ رہا تھا۔ اس لیے ان کے اسٹاف سے درخواست کی کہ علی جہانگیر سے ایک ملاقات کروائی جائے تاکہ اس غیر معمولی فیصلے کو سمجھنے کی کوشش کی جاسکے۔

ملاقات کے لیے دفتر کا وقت طے ہوا۔ وقتِ مقررہ پر دفتر پہنچے تو پتہ چلا کہ علی جہانگیر ایک نجی جامعہ میں لیکچر دینے گئے ہیں اور اب ہماری ملاقات وہیں دوپہر کے کھانے پر ہوگی۔ شیڈول میں بتائے بغیر تبدیلی ناگوار تو تھی مگر اس کو برداشت کرتے ہوئے نجی جامعہ پہنچ گئے۔

کانفرنس ہال میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کرسیوں کے ساتھ ساتھ زمین پر بھی بیٹھے تھے اور میز کی ایک طرف قیمتی پینٹ کوٹ میں ملبوس نوجوان بے تکان امریکی لہجے میں لیکچر دیئے جارہا تھا اور یہ وہی شخص تھا جس سے ہم ملنے آئے تھے یعنی علی جہانگیر صدیقی۔

لیکچر کاروبار، انٹر پنیور شپ کے گرد گھوم رہا تھا۔ اس لیکچر میں علی نے بتایا کہ انہوں نے اپنا پہلا کاروبار اس وقت قائم کیا جب ان کی عمر 18 سال سے بھی کم تھی۔ وہ حیدرآباد شہر میں کمپیوٹرز کی فروخت اور سپلائی کا کام کرتے تھے۔ ان کی کم عمری کی وجہ سے بینک میں اکاونٹ بھی نہیں کھل رہا تھا۔ جس کے لیے انہوں نے کسی اور کو ملازم رکھا جو بینک میں اکاونٹ کھولنے کے ساتھ ساتھ چیک پر دستخط بھی کرسکے۔

علی جہانگیر کے مطابق کامیاب کاروبار میں کیش فلو کی مینجمنٹ بہت اہم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کاروبار کامیابی سے چل رہا تھا اور منافع بھی ہورہا تھا، مگر پھر بھی پیسہ پاس موجود نہ تھا کیونکہ بڑھتے ہوئے آرڈرز کے لیے تمام رقم نئی خریداری پر لگ رہی تھی۔ اس لیکچر میں علی جہانگیر نے متعدد موضوعات پر بات چیت کی مگر سفارت کاری کے حوالے سے بات کرنے سے معذرت کرلی تھی۔

لیکچر ختم ہونے کے بعد کانفرنس ہال میں ابھی علی جہانگیر سے بات چیت کا سلسلہ شروع ہی کیا تھا کہ میزبان مداخلت کرکے انہیں اپنے ساتھ لے گئے اور ہمیں بھی کھانے کے کمرے میں لے گئے۔ کھانے کے دوران اور بعد میں میزبان، طلبہ اور دیگر افراد سے علی کی گپ شپ جاری رہی اور ہمیں یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے علی یہ بھول چکے ہیں کہ انہوں نے ملاقات کے لیے صحافیوں کو بھی بلایا ہوا ہے۔ مگر ان تمام افراد کو وقت دینے کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور بات وہیں سے شروع کی جہاں پر رکی تھی۔ اس بات سے اندازہ ہوا کہ اپنے وقت کو کس طرح استعمال کرنا ہے اور کتنا وقت کس کو دینا ہے، علی اس کا حساب کتاب رکھتے ہیں۔

بات چیت کا آغاز امریکا میں ان کی بطور سفیر تعیناتی سے ہوا۔ ان سے پوچھا گیا کہ چونکہ اب امریکی سفارت کاری سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹر پر منتقل ہوچکی ہے اور خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی براہِ راست ٹوئیٹ کرکے اپنی پالیسی کا اعلان کرتے ہیں، اور اس ٹوئٹر ڈپلومیسی میں کسی لگی لپٹی کا خیال نہیں رکھا جاتا، تو وہ اس ساری صورتحال میں کس طرح کام کریں گے؟

اس سوال پر علی جہانگیر کا کہنا تھا کہ یقیناً یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان نے امریکا کو ترکی بہ ترکی جواب دینے کے بجائے ایک انسٹیٹیوشنل طریقے سے سفارت کاری میں جواب دیا ہے اور اس حوالے سے پاکستان میں دیا جانے والا ردِعمل اور طریقہ دونوں درست ہیں۔ مگر اس ٹوئٹر سفارت کاری کا توڑ کس طرح کیا جائے یہ ایک اہم بات ہے۔ پاکستان کے پاس ایسا طریقہ کار موجود نہیں کہ ہم ٹوئٹر کی زبان میں جواب دے سکیں۔

مزید پڑھیے: پاک۔امریکا تعلقات شراکت داری کی بنیاد پر بھی ہونے چاہئیں، وزیرداخلہ

پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں اس وقت بہت زیادہ سرد مہری موجود ہے۔ امریکا کا ہدف اس وقت افغانستان میں کامیابی، بھارت کو خطے میں سیکیورٹی کردار دینا اور پاکستان کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرانا ہے۔

سوال: آپ کا پروفیشنل سفر بطور ایک سرمایہ کار اور بینکار کے ہے۔ ایسے میں آپ کس طرح امریکی انتظامیہ سے ڈیل کر پائیں گے؟

جواب: علی جہانگیر کا کہنا تھا کہ یہاں ابلاغ ایک مشکل کام ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں شامل افراد پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر اعلی عہدیداران کا تعلق کاروبار یا سرمایہ کار بینکاری سے ہے جو جلد از جلد کوئی ڈیل چاہتے ہیں اور ماضی کی باتوں کے غلام نہیں ہوتے ہیں۔

امریکا میں داخلی اور خارجی 2 محاذ ہیں۔ خارجی محاذ پر پاکستان کی کوشش ہوگی کہ امریکا کے ساتھ بطور پاکستان ڈیل کیا جائے۔ پاکستان کو امریکا کی بھارت سے متعلق پالیسی کے تناظر میں نہ دیکھا جائے۔ امریکا کے بھارت سے کیا تعلقات ہیں اور وہ بھارت کو کیا کردار دینا چاہتا ہے اس سے ہٹ کر امریکا کو پاکستان سے الگ ڈیل کرنی چائیے، اور امریکی حکام کو اس جانب لانا ایک چیلنج ہوگا۔

دوسری طرف امریکا میں داخلی محاذ پر مقامی صنعتوں کے قیام، نوکریوں کی واپسی اور امریکی مارکیٹ کو تحفظ دینا ہے۔ امریکی حکومت آزاد طریقہ کار اپنانے کے بجائے مقامی صنعت کو تحفظ دینے یا پروٹیکشن ازم کی جانب بڑھ رہی ہے۔ امریکا چین کے ساتھ تجارتی جنگ کو آگے بڑھا رہا ہے اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ امریکا چین پر تجارتی پابندیاں یا درآمدات پر ٹیرف کی پابندیاں اور ڈیوٹی عائد کردے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ یقیناً ایشیائی ملکوں کے لیے خطرناک ہوگا۔ اگر چین کی معیشت متاثر ہوئی تو ایشیاء کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت بھی متاثر ہوگی اور یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکا چین کے ساتھ ساتھ دیگر ملکوں پر بھی ٹیرف عائد کردے۔

سوال: پاک-امریکا تجارتی تعلقات سے متعلق کچھ سوچا ہے آپ نے؟

جواب: پاکستان اور امریکا کے تجارتی تعلقات پر علی جہانگیر کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارت میں تجارتی توازن پاکستان کے حق میں ہے اور پاکستان سالانہ 6 ارب ڈالر امریکا سے کما رہا ہے اور یہ کوشش کی جائے گی کہ 6 ارب ڈالر کی تجارت کو 10 ارب ڈالر تک لے جایا جائے۔

مگر دوسرے ہی سانس میں علی جہانگیر کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں کاروبار کا ماڈل تبدیل ہورہا ہے۔ سعودی عرب اور امارات کے سرمایہ کار اب امریکا میں سرمایہ کاری کررہے ہیں اور یہ سرمایہ کاری ایسے سینیٹرز اور کانگریس اراکین کے حلقہ انتخاب میں ہورہی ہے جن کی وہاں خارجہ پالیسی اور اندرونی پالیسی میں بہت اہمیت ہے، اور اس سرمایہ کاری کے ذریعے وہ پالیسیوں کی تبدیلی یا اپنے حق میں تسلسل کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

علی جہانگیر کے مطابق پاکستان کو اپنی مصنوعات امریکا میں فروخت کرنے کے بجائے امریکا میں سرمایہ کاری کرنے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ بطور سفیر چارج سنبھالنے کے بعد تجارت اور سرمایہ کاری کا ایجنڈہ سرِفہرست ہوگا اور کوشش کی جائے گی کہ ویلیو ایڈیشن اور مارکیٹنگ کے ذریعے پاکستانی تجارت کو بڑھایا جائے۔ ایسے برآمد کنندہ گان جو پہلے ہی امریکا میں تجارت کرر ہے ہیں اور جن کے پاس تمام طرح کے اجازت نامے موجود ہیں انہیں امریکا میں مارکیٹنگ کے لیے بلایا جائے گا۔ اس کے بعد ایسے برآمد کنندہ گان کو شامل کیا جائے گا جو امریکا میں برآمد کرنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں۔

سوال: حکومت میں چند ماہ کا تجربہ کیسا رہا؟

جواب: حکومت میں چند ماہ کے تجربے کے بارے میں علی جہانگیر کا کہنا تھا کہ جب وزیرِاعظم کا مشیر بننے کی پیشکش ہوئی تو سب نے کہا کہ زندگی اجیرن ہوجائے گی۔ ٹانگیں کھینچی جائیں گی اور ایک ایک دستخط پر نیب کے کیس بنائے جائیں گے، جو اب بن بھی رہے ہیں، مگر کوشش تھی کہ کسی بھی طرح ملک کے کام آسکوں۔

علی جہانگیر نے کہا کہ حکومت میں آکر پتہ چلا کہ وزارتوں کے حوالے سے وسیع البنیاد اصلاحات کی ضرورت ہے۔ صنعتوں کی پالیسی بنانا وزارتِ پیداوار و صنعت کا کام ہے جبکہ برآمدت میں اضافہ کرنا وزارت تجارت کا کام ہے۔ پاکستان میں تحریر کردہ صنعتی پالیسی محض صنعت کے لیے ہے نہ کہ برآمدی صنعت کی پالیسی ہو۔ جبکہ صنعتی پالیسی کو برآمدی صنعتی پالیسی ہونا چاہیئے۔

سفارت کاری کے تجربے پر علی جہانگیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور ورلڈ اکنامک فورم میں وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کی معاونت کی جبکہ اسلامی تعاون تنظیم میں سابق وزیرِ خارجہ خواجہ آصف کی ٹیم کا حصہ بھی رہے اور یہی کچھ ان کا سفارت کاری کا تجربہ ہے۔

سوال:وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی سے تعلقات کے بارے میں کچھ بتائیے؟

جواب: علی جہانگیر کا کہنا تھا کہ ان کی مسلم لیگ (ن) میں وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی سے اس وقت ملاقات ہوئی جب وہ مشرف دور میں جیل سے نکل کر اپنی ایئرلائن شروع کر رہے تھے۔ شاہد خاقان عباسی میرے سیاسی منٹور (پیر) ہیں۔ خاقان عباسی صاحب ایک سادہ طبع اور شریف النفس انسان ہیں۔ جیسی ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر آتی ہیں۔ اسی طرح ہی ان کی زندگی سادہ ہے۔ وہ اپنے گھر میں ملازمین کے ساتھ بہت ہی نرمی اور شفقت سے پیش آتے ہیں۔

علی جہانگیر کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ پاک امریکا تعلقات میں فوجی اور علاقائی تعاون سے زیادہ امریکا کے ساتھ تجارتی، صنعتی اور کاورباری تعلقات کو قائم کرنے کی کوشش کریں گے اور اس مقصد کے لیے پاکستان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ دلوانے کی کوشش کریں گے۔ ان کی نظر میں امریکی حکام سے کوئی بھی بات کرنا ایک کاروباری لین دین کی طرح ہی ہوگی اور اسی تناظر میں سب کام ہوں گے۔

کسی کہنہ مشق، تجربہ کار اور جہاندیدہ بیورکریٹ یا سیاستدان کے بجائے ایک نوجوان، نو آموز فرد کی امریکا میں سفیر تعیناتی امریکا کے لیے بھی پیغام ہوسکتی ہے کہ چین اور روس سے تعلقات بہتر ہونے کے بعد اب پاکستان خارجہ کی سطح پر امریکا کا محتاج نہیں رہا ہے اور پاکستان اب امریکا کے ساتھ سیکیورٹی اسٹیٹ کے بجائے ایک بزنس پارٹنر کے طور پر تعلقات چاہتا ہے۔ سی پیک کے بعد پاکستان کی بڑھتی ہوئی معیشت میں امریکی کمپنیوں کے لیے بھی ترقی کی گنجائش موجود ہے۔

پاکستان اور امریکا تعلقات کس ڈگر پر جاتے ہیں اس حوالے سے کوئی بھی بات کرنا قبل از وقت ہے اور ان پیچیدہ حالات میں علی جہانگیر کس قدر امریکی حکام پر اثر انداز ہو پائیں گے؟ اور کیا وہ پاکستان کا موقف درست طور پر بیان کرنے میں کامیاب ہوپائیں گے؟ اس سوال کا جواب تو وقت ہی دے سکے گا۔ بہرحال بطورِ پاکستانی میں ان کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں کیونکہ اگر وہ ناکام ہوئے تو پاکستان ناکام ہوگا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Ibrahim May 15, 2018 12:16pm
This not wise decision