لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن (ایل ایچ سی بی اے) کے جنرل ہاؤس نے ایک قرار داد منظور کی ہے جس میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فل بینچ از خود نوٹس لینے کے حوالے سے باقاعدہ اصول وضع کرے۔

واضح رہے یہ قرار داد ایڈووکیٹ تنویر ہاشمی کی جانب سے پیش کی گئی جو خدیجہ صدیقی پر چھریوں کے وار کے مقدمے کے ملزم شاہ حسین کے والد ہیں اور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مذکورہ ملزم کی بریت کے فیصلے کے خلاف ازخود نوٹس لیا تھا۔

اس موقع پر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر انوارالحق پنو اور دیگر سینئر وکلا بشمول حافظ عبدالرحمٰن انصاری، احسان وائیں، اور زاہد حسین بخاری نے بھی جنرل ہاؤس سے خطاب کیا۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس کا خدیجہ صدیقی کے حملہ آور کی رہائی پرازخود نوٹس

مقررین کا کہنا تھا کہ از خود نوٹسز کے سلسلے میں آئین کی دفعہ 184 (3) کے تحت اصول وضع کیے جانے چاہیے جو بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے سپریم کورٹ کو بااختیار بناتی ہے۔

اس ضمن میں خدیجہ صدیقی پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے لیے گئے از خود نوٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ مذکورہ معاملے میں از خود نوٹس لینے کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ مدعیہ کے پاس مذکورہ فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اختیار موجود تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا اگر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ پائی گئی تو سپریم کورٹ کی جانب سے لیے گئے تمام از خود نوٹسز غیرآئینی سمجھے جائیں گے۔

مزید پڑھیں: شاہ حسین کو بے گناہ قرار دینا معاشرے کی ہار ہے،خدیجہ صدیقی

اس ضمن میں انوارالحق پنو کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ بار کا یہ جنرل ہاؤس اجلاس صرف خدیجہ صدیقی کے معاملے پر گفتگو کرنے کے لیے نہیں طلب کیا گیا البتہ مذکورہ معاملہ بھی اس کی ایک وجہ تھی جس کے باعث یہ اجلاس بلایا گیا۔

ان کا کہنا تھا اصل میں اس اجلاس کے انعقاد کا مقصد سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس لینے کے اختیارات پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینے کے حوالے سے اصول وضع کرنا چاہیے اور ایسے مقدمات میں از خود نوٹس لینے سے گریز کرنا چاہیے جس میں فریقین کے پاس اپیل کا اختیار ہو۔

مزید پڑھیں: جج پر جانبداری کا دعویٰ نشر کرنے پر عدالت کا میڈیا سے معافی کا مطالبہ

اس کے علاوہ انہوں نے تفصیلی فیصلہ جانے بغیر ٹیلی ویژن پروگرامز میں عدالتی احکامات پر کی جانے والی تنقید کی بھی مذمت کی، ان کا کہنا تھا کہ بلاوجہ کی تنقید سے عدلیہ پر دباؤ پڑتا ہے۔

اس ضمن می چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے اکثر دہرائے جانے والے اس دعویٰ پر کہ وکلاء ان کے ’سپاہی‘ ہیں، ردعمل دیتے ہوئے بار ایسوسی ایشن کے صدر کا کہنا تھا کہ ’وکلا عدالتی افسران ہیں کسی کے سپاہی نہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا پر خدیجہ کیلئے انصاف کا مطالبہ

ان کا مزید کہنا تھا کہ وکلا صرف اس وقت تک عدلیہ کی حمایت کریں گے جب تک وہ آئین کی پاسداری کرتی رہے گی۔

انہوں نے بتایا کہ 10 جون کو سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں خدیجہ صدیقی کے مقدمے کی سماعت کے دوران ہائی کورٹ بار مذکورہ معاملے کو عدالت کے سامنے پیش کرے گی۔


یہ خبر 8 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (2) بند ہیں

Rana ghulam mustafa Jun 08, 2018 01:30pm
Lawyers have become liers and mafia in black coat!
اعجاز احمد Jun 08, 2018 10:53pm
مقدمات اور ھیومن ریسورس کے اعتبار سے لاھور ہائیکورٹ۔ملک کا بہت بڑا عدالتی ادارہ ھے۔لیکن بدقسمتی سے رجعت پسندی اورکمتر گریڈز میں سب سے آگے۔بھٹو کے فیصلے سے لیکر آج خدیجہ کیس تک۔نیز وکلاء کے کنڈکٹ سمیت یہ ایک شرمناک عدالتی تاریخ رکھنے والے ادارے کے طور پر سامنے آیا ھے۔