اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے احتساب عدالت سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا پانے والے مجرم کیپٹن (ر) صفدر کو اڈیالا جیل منتقل کردیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز کیپٹن (ر) محمد صفدر ریلی کی شکل میں راولپنڈی کے لیاقت باغ پہنچے اور نیب حکام کو اپنی گرفتاری پیش کی تھی، انہوں نے رات نیب کے ریجنل آفس میں گذاری۔

یہ بھی پڑھیں: کیپٹن (ر) محمد صفدر نے نیب کو گرفتاری دے دی

ڈان نیوز کے مطابق 9 جولائی کو نیب حکام نے ایون فیلڈ ریفرنس میں ایک سال سزا پانے والے کیپٹن (ر) صفدر کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کے روبرو پیش کیا۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کو سخت سیکیورٹی میں نیب کے ریجنل دفتر سے احتساب عدالت لیا گیا اور نیب حکام نے جج محمد بشیر کے روبرو پیش کر کے کیپٹن (ر) صفدر کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کرائی۔

جس کے بعد عدالت نے انہیں اڈیالا جیل منتقل کرنے کا حکم دیا، بعد ازاں سخت سیکیورٹی میں کیپٹن (ر) محمد صفدر کو اڈیالا جیل روانہ کردیا گیا۔

جب مجرم کو جوڈیشل کمپلکس میں لایا گیا تو پولیس کی بھاری نفری موجود تھی جس نے حصار بنا کر کیپٹن (ر) صفدر کو عدالت کے اندورنی احاطے میں پہنچایا، علاوہ ازیں کیپٹن (ر) محمد صفدر کی سیکیورٹی میں پولیس کے علاوہ رینجرز اہلکار بھی شامل تھے۔

مزید پڑھیں: نواز شریف 25 جولائی سے پہلے پاکستان آئیں گے،مسلم لیگ (ن)

خیال رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت نے کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی، یہ سزا انہیں نیب سے تعاون نہ کرنے پر سنائی گئی تھی۔

العزیزہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت

بعد ازاں اسلام آباد احتساب عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی 5 دن کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں 3 دن کی استثنیٰ منظور کرلی۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں استدعا کی کہ ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کے بعد فاضل جج دیگر دونوں ریفرنس کو دوسری عدالت میں منتقل کردیں۔

جس پر احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ریمارکس دیئے کہ ریفرنسز منتقل کرنے سے متعلق ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسر کے مقدمے میں توسیع کی درخواست لکھیں گے۔

جج محمد بشیر نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کو بھجوائی جانے والی درخواست میں آپ کا اعتراض بھی شامل کرلیں گے۔

احتساب عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت 12جولائی تک ملتوی کردی۔

ایون فیلڈ ریفرنس کا پس منظر

گزشتہ برس 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کی روشنی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا تھا جس کے ساتھ ہی وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے بھی نااہل قرار پائے تھے۔

مذکورہ فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ نے نیب کو نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا، جبکہ ان ریفرنسز پر 6 ماہ میں فیصلہ سنانے کا بھی حکم دیا تھا۔

ایون فیلڈ یفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز، حسن اورحسین نوازکے علاوہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدرملزم نامزد تھے، تاہم عدالت نےعدم حاضری کی بنا پر نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دیا تھا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے ان ریفرنس کا فیصلہ 6 ماہ میں کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ مدت رواں برس مارچ میں ختم ہونی تھی تاہم سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کی درخواست پر شریف خاندان کے خلاف زیرِ سماعت نیب ریفرنسز کی ٹرائل کی مدت میں 2 ماہ تک کی توسیع کردی گئی تھی۔

10 جون کو سپریم کورٹ کی جانب سے حکم دیا گیا کہ شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کا فیصلہ ایک ماہ میں سنایا جائے۔

11 جون 2018 کو کیس میں نیا موڑ آیا جب حتمی دلائل کی تاریخ سے ایک دن پہلے خواجہ حارث کیس سے الگ ہوگئے جس پر نوازشریف کی طرف سے ایڈووکیٹ جہانگیر جدون نے وکالت نامہ جمع کروایا تاہم 19جون کوخواجہ حارث احتساب عدالت پہنچے اوردست برداری کی درخواست واپس لے لی۔

یہ بھی یاد رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں مجموعی طور پر18 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء بھی شامل تھے۔

6 جولائی 2018 کو شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔

تبصرے (0) بند ہیں