اسلام آباد: وزرات خزانہ کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سابقہ حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے اب تک 55 ہزار 2 سو 25 افراد فائدہ اٹھا چکے ہیں۔

اس ضمن میں پاکستانی شہریوں کی جانب سے تقریباً 5 سو 77 ارب روپے مالیت کے غیر ملکی اثاثے ظاہر کیے جاچکے ہیں جبکہ اندرون ملک ظاہر کیے گئے اثاثوں کی مالیت تقریباً ایک کھرب ایک سو 92 ارب روپے ہے۔

اس کے علاوہ ظاہر کیے گئے اثاثوں پر اب تک تقریباً 97 ارب روپے ٹیکس بھی ادا کیا جاچکا ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کی نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے کس کا فائدہ کس کا نقصان؟

واضح رہے کہ اس رقم میں سے 36 ارب غیر ملکی اثاثوں کی مد میں جبکہ 61 ارب روپے اندرونِ ملک موجود اثاثوں کی مد میں جمع کروائے گئے جبکہ 4 کروڑ ڈالر وطن واپس لائے گئے ہیں، اس سے قبل کسی ٹیکس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔

واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی میعاد میں توسیع کر کے آخری تاریخ 31 جولائی مقرر کردی گئی تھی۔

سرکاری سطح پر جاری بیان کے مطابق غیر ملکی اثاثوں کی مد میں ایمنسٹی اسکیم کا اطلاق منقولہ اور غیر منقولہ دونوں طرح کی جائیدادوں پر ہوتا ہے، جس میں بینک اکاؤنٹس، حصص اور رہن رکھی ہوئی جائیداد بھی شامل ہیں جبکہ ٹیکس کی شرح جائیداد کی اقسام کے لحاظ سے 2 فیصد سے 5 فیصد تک ہے۔

مزید پڑھیں: ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت قومی خزانے میں 80 ارب روپے جمع

خیال رہے کہ 2 فیصد ٹیکس کی شرح خاص طور پر ان منقولہ اثاثوں پر لاگو ہوتی ہے جو وطن واپس منتقل کیے جائیں۔

دوسری جانب اندرون ملک موجود ہر طرح کی جائیداد اور آمدنی پر ٹیکس کی شرح بھی 2 فیصد سے 5 فیصد تک ہے۔

غیر ملکی اثاثوں پر ٹیکس کی ادائیگی کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے علیحدہ طریقہ کار متعارف کروایا گیا ہے جس میں مذکورہ رقم مخلتف ذرائع سے امریکی ڈالر کی شکل میں اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے معیشت پر دباؤ کم ہوگا: مودیز

یاد رہے کہ پاکستان، تنظیم برائے معاشی تعاون و ترقی (او ای سی ڈی) کے کثیر الجہتی کنوینشن پر دستخط کرچکا ہے جس کی رو سے پاکستان میں مقیم افراد کے آف شور اکاؤنٹس کی معلومات تک رسائی رواں برس ستمبر سے حاصل ہوجائے گی۔

اس کنوینشن پر دستخط کرنے سے وفاقی ریوینیو بورڈ کا دائرہ کار پاکستان میں رہنے والے شہریوں کے ان آف شور اکاؤنٹس تک وسیع ہوجائے گا جو کنوینشن میں شامل ممالک میں موجود ہوں گے۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت نے ٹیکس ایمنسٹی آرڈیننس پر دستخط کردیئے

اس سلسلے میں 1992 میں متعارف کروائے گئے تحفظ برائے اقتصادی اصلاحات کے قانون میں ضروری ترامیم بھی کی گئیں ہیں تا کہ زرمبادلہ کی نقل و حمل کو ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت منظم کیا جاسکے۔

اس کے علاوہ انکم ٹیکس آرڈیننس میں بھی ترمیم کی گئی ہے جس کے بعد ایف بی آر ایک کروڑ سے زائد مالیت کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذرائع کے بارے میں پوچھ گچھ کرسکتا ہے جبکہ غیر ملکی اثاثوں اور آمدنی کی تفتیش پر لگائی گئی 5 سال کی پابندی بھی ختم کردی گئی ہے۔


یہ خبر 12 جولائی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jul 12, 2018 04:24pm
ایمنسٹی اسکیم پر اعتراضات اپنی جگہ مگر اس کی مدت ختم ہونے کے بعد بڑے بڑے مگرمچھوں پر آہنی ہاتھ ضرور ڈالا جائے۔ وہ جو کہتے ہیں نہ کہ پاتال میں سے بھی ان کو برآمد کیا جائے، اسی طرح ان کو جرمانہ نہیں بلکہ قید کی سزا دی جائے، ممکن ہو تو وزیر اعظم یا وزیر خزانہ ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہ اٹھانے والے ٹیکس چوروں کو ایک بار خبردار کردیں، دوسری بات یہ کہ ملک میں ڈیم بنانے کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح ایک فیصد بڑھا دی جائے اور یہ ایک فیصد ایف بی آر کے بجائے ڈیم فنڈ میں منتقل کیا جائے، اسی طرح جب ڈیم بن جائے تو عوام کے لیے بجلی سستی کی جائے۔