ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل ان خدشات کا اظہار کردیا گیا تھا کہ عالمی کپ میں آںے والے شائقین کو روس میں نسلی تعصب کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے لیکن حیران کن طور پر اس ایونٹ کے دوران خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات نے سب کو حیران کردیا۔
انسانی رویوں سے متعلق ماہر نے تصدیق کی کہ عالمی کپ 2018 کے دوران نسلی تعصب سے زیادہ جنسی تعصب زیادہ بڑا مسئلہ رہا اور اس کے کئی واقعات سامنے آئے۔
ورلڈ کپ کے دوران روس کی سڑکوں پر فینز کی جانب سے خواتین رپورٹرز اور برڈ کاسٹرز کو ہراساں کیا گیا اور فیفا کو مختلف مستند ذرائع سے 'جنسی ہراسگی' کے کل 30 سے زائد واقعات رپورٹ کیے گئے۔
مزید پڑھیں: کروشیا پہلی مرتبہ ورلڈ کپ فائنل میں پہنچ گیا، انگلینڈ باہر
ورلڈ کپ میں سامنے آنے والے مسائل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فیفا کے ڈائیورسٹی پروگرام کے سربراہ نے کہا کہ فیفا چاہتا ہے کہ مستقبل میں براڈکاسٹرز اسٹیڈیم میں موجود پرکشش خواتین کی تصاویر اور ویڈیوز کم سے کم دکھائیں۔
فیڈریکو اڈیچی نے کہا کہ فیفا اس مسئلے کے حوالے سے قومی براڈ کاسٹرز اور اپنی ذاتی پروڈکشن ٹیم سے مفصل بات چیت کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔
فیئرنیٹ ورک کے ڈائریکتر پیارا پوار نے کہا کہ ہمیں نسل پرستی کے مسائل کا اس حد تک سامنا نہیں کرنا پڑا جس کی ہم توقع کر رہے تھے، انہوں نے روس کے عوام کو سراہتے ہوئے کہا کہ مہمانوں کو بہترین انداز میں خوش آمدید کہا گیا البتہ اس کے بجائے خواتین میڈیا کارکنان اور شائقین کے ساتھ ناروا سلوک اور جارحانہ رویہ موضوع بحث بن گیا۔
Great response from Brazilian TV journalist Julia Guimaraes of Sportv to unacceptable behaviour. Not easy to show such restraint in the face of harassment. pic.twitter.com/eFVZz6gdMA
— Colin Millar (@Millar_Colin) June 24, 2018
پوار نے کہا کہ جنسی ہراسگی کے جو واقعات سامنے آئے ان میں آدھے واقعات میں خواتین براڈ کاسٹرز کو نشانہ بنایا گیا جس وقت وہ اپنے ٹی وی پر براہ راست کوریج میں مصروف تھیں جبکہ انہوں نے اندازہ لگایا کہ خواتین کو نشانہ بنانے کے 10 گنا زیادہ واقعات رونما ہوئے ہوں گے جنہیں رپورٹ نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ورلڈ کپ میں ایک اور خاتون صحافی کا بوسہ لینے کی کوشش
روس میں جاری ورلڈ کپ میں خاتون رپورٹر کو ہراساں کرنے کا پہلا واقعہ اس وقت سامنے آیا تھا جب ایونٹ کے پہلے راؤنڈ کے دوران جرمن ادارے کے لیے رپورٹنگ کرنے والی کولمبیا کی صحافی کا ایک فین نے بوسہ لے لیا تھا۔
خاتون رپورٹر براہ راست رپورٹنگ کررہی تھیں کہ ایک مداح نے انہیں بوسہ دیا بعدازاں رپورٹر نے ویڈیو اپنے انسٹا گرام میں نشر کی اور اس کے ساتھ تحریر کیا کہ ‘احترام کیجیے! ہم اس طرز عمل کے مستحق نہیں’۔
یہ سلسلہ یہی نہیں رکا اور اس واقعے کے ایک ہفتے کے اندر ہی روس کے شہر یکاٹیرن برگ میں خاتون صحافی کا بوسہ لینے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے اسے ناکام بنا دیا۔
برازیلین ٹی وی کی صحافی جولیا گوئماریس کیمرے کے سامنے رپورٹنگ کے فرائض انجام دے رہی تھیں کہ ایک شخص نے ان کے گال پر بوسہ لینے کی کوشش کی لیکن خاتون صحافی نے پیچھے ہٹ کر خود کو بچا لیا۔
اس موقع پر جولیا نے شدید برہمی کا اظہار کیا جس پر بوسہ لینے کی کوشش کرنے والے شخص نے فوراً معذرت کر لی۔
جولیا نے اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہ کریں، ایسا کسی کے بھی ساتھ نہ کریں، میں آپ کو ایسا کرنے کی اجازت کبھی نہیں دے سکتی، یہ ٹھیک نہیں ہے۔
ضرور پڑھیں: ورلڈکپ کوریج کے دوران خاتون رپورٹر کو بوسہ
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آپ کو ایسا کسی بھی عورت کے ساتھ نہیں کرنا چاہیے، احترام کریں۔
جولیا کے اس جرأت مندانہ اقدام اور جارحانہ ردعمل پر صحافی برادری نے انہیں بھرپور انداز میں سراہتے ہوئے داد دی اور تمام خواتین صحافیوں کے لیے مثال قرار دیا۔
تبصرے (0) بند ہیں