مون سون میں درخت لگانے کا موسم اب باقاعدہ طور پر جاری و ساری ہے۔ آئیں کچھ درختوں، بیلوں اور جھاڑیوں پر نظر ڈالتے ہیں جنہیں ابھی سے لے کر تقریباً وسط ستمبر تک لگایا جاسکتا ہے تاکہ ہمارے شہر اور گھر کو دوبارہ شاداب بنایا جاسکے۔

مقامی ورائیٹیز اور سالوں سے اپنی موسمیاتی اور ماحولیاتی موزونیت ثابت کرنے والے پودوں میں سے بے تحاشہ درخت ہیں جن کا انتخاب کیا جاسکتا ہے، مگر ان میں سے کچھ کو نرسریوں میں ڈھونڈنا مشکل ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو اس کی جگہ ان کے بیج ڈھونڈیں: ابھی بودیں اور اگلے سال تک وہ پودہ اتنا بڑا ہوچکا ہوگا کہ اسے اسی موسم میں کسی جگہ لگایا جاسکے۔

جب بھی کسی درخت، بیل یا جھاڑی کے پودے کا انتخاب کر رہے ہوں تو صرف وہ پودے لیں جو بہترین صحت رکھتے ہوں۔ نرسری والوں کے دھوکے میں آکر کوئی بھی ایسا پودہ نہ خریدیں جو ذرا سی بھی خراب حالت میں ہو، جس پر کیڑوں یا بیماری کے نشان ہوں یا جس کی نشونما سست رفتار ہو۔ سال کے ان دنوں میں صرف گملوں میں اگائے گئے پودے خریدیں، جبکہ براہِ راست زمین میں اگائے گئے پودوں کو سردیوں میں بونے کے لیے چھوڑ دیں۔

درخت، بیل یا جھاڑی خریدنے سے پہلے اس بات پر سنجیدگی سے غور کریں کہ بالغ ہونے پر وہ کتنی اونچائی، چوڑائی اور پھیلاؤ حاصل کرچکیں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ خاص طور پر درختوں کی زیرِ زمین جڑیں ان کی زمین سے اوپر موجود بڑھوتری کا دو گنا ہو سکتی ہیں۔

پڑھیے: نقصان دہ کونوکارپس کو اکھاڑنا فائدے مند کیوں نہیں؟

مؤخر الذکر نکتہ انتہائی اہم ہے جب آپ تعمیراتی ماحول میں پودے لگا رہے ہوں جہاں زمین سے اوپر اور زیرِ زمین موجود تاروں، پانی اور سیوریج کے پائپس اور دیواروں کی بنیادوں کا خیال رکھنا چاہیے کیوں کہ جڑیں اپنا راستہ بناتی رہتی ہیں اور سڑکوں اور فٹ پاتھ کو توڑ سکتی ہیں۔

درختوں، بیلوں اور جھاڑیوں کی بوائی کے لیے گڑھوں کو بونے سے کم از کم 2 ہفتے قبل تیار کیا جانا چاہیے۔ اس سے زمین اور اس میں شامل کیے گئے مواد کو آپس میں ملنے کے لیے وقت مل جاتا ہے۔ مگر یہ ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا، خاص طور پر اگر مقامی طور پر شجرکاری کی مہم کے تحت یہ کام کیا جا رہا ہو۔ درست احتیاط اور توجہ کے ساتھ یہ کام بوائی کے وقت بھی کیا جاسکتا ہے۔

گڑھا بنانے کا طریقہ: پودے کی موجودہ جڑوں سے کم از کم دو گنا گہرا اور دو گنا چوڑا گڑھا کھودیں اور اس جگہ موجود کوئی بھی پتھر اور خودرو پودے ہٹا دیں۔ نکالی گئی مٹی میں قدرتی نامیاتی کھاد ملائیں، آدھا آدھا مکسچر بہترین ہوگا۔ اگر ممکن ہو تو گڑھے کی بنیاد میں چربی اور گوشت سے مکمل طور پر صاف کی گئی ایک بڑے گوشت کی ہڈی یا پھر چند اتنی ہی صاف مرغی کی ہڈیاں ڈال دیں اور پھر گڑھے کو کھاد اور مٹی کے ملغوبے سے آدھا بھر دیں۔ ہڈیوں سے پودے کو آئندہ آنے والے سالوں میں آہستہ آہستہ معدنیات ملتی رہتی ہیں اور اسے زندگی میں ایک مضبوط شروعات ملتی ہے۔

گڑھے میں مناسب مقدار میں پانی ڈالیں اور اسے جذب ہونے دیں۔ پھر پودے کی جڑیں آہستگی سے پھیلا کر اس میں پودا لگائیں۔ پودے کو بالکل اتنی ہی گہرائی میں لگانا چاہیے جتنا کہ وہ اپنے گملے میں لگا ہوا تھا، یعنی کہ اس کے نئے گھر میں اس کے تنے کی شروعات بالکل زمین کی سطح سے ہونی چاہیے، نہ اس سے اوپر، نہ اس سے نیچے، بلکہ بالکل برابر۔

پڑھیے: کراچی میں اتنی شدید گرمی کیوں

ہوسکتا ہے کہ اس توازن کو حاصل کرنے کے لیے آپ کو گڑھے کا آدھے سے زیادہ حصہ بھرنا پڑے، مگر جب آپ یہ توازن حاصل کرچکیں تو پودے کی نازک جڑوں کے اردگرد اتنی مٹی بھر دیں کہ گڑھا بھر جائے۔ مزید پانی ڈالیں اور اسے جذب ہونے دیں۔ اگر ضرورت ہو تو مٹی کا مزید ملغوبہ شامل کریں۔ جڑوں کے اردگرد مٹی کو دبانے یا تھپتھپانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے، ایسا کرنے سے پودے کی جڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ پانی دیا جائے تاکہ مٹی اپنی جگہ بنا لے۔

آگے بڑھنے سے پہلے میں 2 اہم نکات پر توجہ دلانا چاہوں گی:

1: اگر پودے کو سہارے کی ضرورت ہے تو سہارا گڑھے کے اندر پودا لگانے سے پہلے ہی موجود ہونا چاہیے۔ بعد میں سہارا لگانے سے پودے کی جڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

2: پودوں، خاص طور پر درختوں کے ان پودوں کو جو باغ سے باہر لگائے گئے ہیں، انہیں شروع کے 2 سے 3 سالوں تک باقاعدگی سے پانی دینا ہوتا ہے ورنہ نقصان بہت زیادہ ہوگا۔ اس میں مدد کے لیے اور خود پانی دینے سے بچنے کے لیے پلاسٹک کی پرانی بوتلوں کے ذریعے ڈرپ سسٹم استعمال کیا جاسکتا ہے۔

کسی بوتل کے ڈھکن میں چھوٹے چھوٹے کچھ سوراخ کریں اور پھر بوتل کا نچلا آدھا حصہ کاٹ دیں۔ پھر اس میں کھلے حصے کے ذریعے چوتھائی حصے تک کچھ ریتی بجری ڈال دیں۔ اس کے بعد اس بوتل کو ڈھکن نیچے کی جانب رکھتے ہوئے زمین کی سطح سے تھوڑا اوپر رکھتے ہوئے دبا دیں، بالکل اسی وقت جب آپ پودا لگا رہے ہوں۔ جب یہ ہوجائے تو اس بوتل میں پانی بھر دیں۔ پانی ریتی بجری سے ہوتا ہوا پودے کی جڑوں میں وہاں پہنچے گا جہاں ضرورت ہوگی۔ ہر کچھ دن میں بوتل کو بھرنا کافی رہے گا۔

درختوں کی جن انواع کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے، ان میں یہ ساری شامل ہیں، مگر چوں کہ ہمارا ملک کافی بڑا ہے اور یہاں مختلف طرح کے ماحول پائے جاتے ہیں، اس لیے مقامی اعتبار سے موزونیت ضرور مدِ نظر رکھیے گا: ناریل، چیکو، شریفا، کھجور، امرود، آم، کچنار، نیم، برگد، پکر، پیپل، مورنگا، املی، املتاس، گلموہر، جنگل جلیبی، لوہیڑو، مسواک، بیر، برنا، جنڈ، ببول، کریر، بادام، گوندنی اور کھیرنی۔

بیلیں: اسپریگس پلوموسس (موصلی)، بوگن ویلیا، منی پلانٹ، گلِ بائی، سوئس چیز پلانٹ اور رنگ برنگی پتوں والی دیگر بیلیں۔ پھول دینے والی بیلوں کو اگانے کا بہترین وقت سردیوں کا ہوا ہے۔

جھاڑیوں میں: کوکلی، ارالیا، تنکار، ارانتھیمم، پینک اور دیگر کئی ایسی جھاڑیاں ہیں جنہیں ان کے پتوں کی خوبصورتی کی وجہ سے اگایا جاتا ہے۔ بیلوں کی طرح پھول دینے والی جھاڑیوں کو اگانے کا بھی بہترین وقت سردیوں کے مہینوں میں ہوتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں