اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے سربراہ مصطفیٰ کمال کی جانب سے کراچی کی حلقہ بندیوں سے متعلق درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات مسترد کردیئے اور تعطیلات کے بعد درخواست سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔

خیال رہے کہ مصطفیٰ کمال کی کراچی میں نئی حلقہ بندیوں سے متعلق درخواست پر چیف جسٹس نے ان چیمبر سماعت کی۔

پی ایس پی کے سربراہ نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں: چھٹی مردم شماری کے نتائج کے خلاف پٹیشن سماعت کیلئے منظور

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے ان کی درخواست سماعت کے لیے منظور ہونے کو ابتدائی کامیابی قرار دیا اور سندھ کے شہری علاقوں کے رہائشیوں کو مبارکباد پیش کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بہت ثبوت موجود ہیں جس کی بنا پر ہم نے یہ پٹیشن دائر کی تھی کہ نئی مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو 70 لاکھ کے قریب کم کیا گیا، اس کے علاوہ سندھ کے شہری علاقوں کی آبادی بھی کم کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹر تاج حیدر نے ایوان بالا میں نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے ریکارڈ منگوایا تھا جس میں نادرا نے 2013 تک کا ریکارڈ پیش کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ریکارڈ کے مطابق کراچی کی آبادی 2 کروڑ 14 لاکھ تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مردم شماری کے عبوری نتائج جاری، آبادی20 کروڑسے متجاوز

اس موقع پر مصطفیٰ کمال نے سوال اٹھایا کہ 5 سال بعد 2018 میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ کیسے ہوسکتی ہے؟

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ یہ کام وزیراعلیٰ سندھ کا تھا لیکن وہ خود اس جرم میں شریک ہوئے، انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ سندھ کے دیہی علاقوں کی آبادی کم نہیں کی گئی تھی، اس سے صرف شہری علاقے متاثر ہوئے تھے۔

پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ نے اس حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ کا نام لیے بغیر انہیں بھی اس معاملے میں تنقید کا نشانہ بنایا کہ اس پارٹی نے بھی اس مسئلے کو نہیں اٹھایا۔

انہوں نے اعلان کیا کہ وہ تمام نجی ادارے اور آرگنائزیشنز جنہوں نے کراچی میں ہونے والی مردم شماری پر اعتراض اٹھایا تھا، وہ آگے آئیں اور اگر ان کے پاس ثبوت موجود ہیں تو وہ پاک سرزمین پارٹی کے ساتھ سپریم کورٹ میں انہیں پیش کریں۔

مزید پڑھیں: مردم شماری میں اور کیا کیا شمار ہونا چاہیے تھا

حالیہ انتخابات میں ناکامی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انتخابات کا وقت مکمل ہونے کے بعد ہمارے ایجنٹس کو پولنگ اسٹیشنز سے نکال دیا گیا تھا اور کہا گیا کہ نتائج 2 گھنٹے کے بعد آر اوز سے لے لینا، لیکن ہمیں نتائج 48 گھنٹے بعد فراہم کیے گئے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ آگر ہمارے ایجنٹس کو پولنگ اسٹیشنز سے نہ نکالا جاتا اور ووٹوں کی گنتی ان کے سامنے ہوتی تو وہ ضرور اپنی شکست تسلیم کرکے کامیاب ہونے والے اُمیدوار کو مبارکباد پیش کرتے اور اس بات کو تسلیم کرتے کہ ہمیں عوام نے مسترد کردیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں