صوابی: رائیونڈ دھماکوں اور دیگر مقدمات میں مطلوبہ مشتبہ شخص، گھر پر کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے چھاپےکے دوران انکاؤنٹر میں مارا گیا، مشتبہ شخص پاک فضائیہ کا سابق ملازم تھا۔

اس حوالے سے پولیس کا کہنا تھا کہ نورالحق نامی شخص فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہوا، جبکہ اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی نے گرفتار کرنے کے بجائے اسے گولی ماردی۔

بعدازاں ورثا اور اہلِ علاقہ نے لاش کے ہمراہ امن چوک پر دھرنا بھی دیا، جس میں انہوں نے حکام سے سی ٹی ڈی کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے معاملےکا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور میں خودکش دھماکا، 9 افراد شہید، 20 زخمی

واضح رہے کہ یہ واقعہ سٹی پولیس تھانے کی حدود میں پیش آیا، جب شیرداد خیل کے علاقے میں رات گئے سی ٹی ڈی کی جانب سے مشتبہ شخص کے گھر پر چھاپا مارا گیا۔

اہلِ خانہ نے الزام لگایا کہ سی ٖٹی ڈی کے اہلکار گھر میں داخل ہوئے اور نورالحق پر فائرنگ کردی اور جاتے ہوئے ان کے بھائی کو اپنے ہمراہ لے گئے جسے بعدازاں چھوڑ دیا گیا۔

اس ضمن میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) محمد طاہر خان کا کہنا تھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے اہلکاروں پر مشتمل سی ٹی ڈی کی ٹیم نے مذکورہ کارروائی کی جبکہ ہلاک ہونے والا شخص چند ماہ قبل رائیونڈ میں ہونے والے دھماکوں میں مطلوب تھا جس میں 10 افراد کی جانیں گئیں تھیں۔

مزید پڑھیں: رائیونڈ دھماکا: شہباز شریف کا شہید اہلکار کے اہلخانہ کو سوا کروڑ روپےکا چیک

دوسری جانب سٹی پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر(ایس ایچ او) قمر زمان کا کہنا تھا کہ نورالحق پاک فضائیہ کا ریٹایرڈ اہلکار تھا اور سی ٹی ڈی کو متعدد وارداتوں میں مطلوب تھا، ملزم کو سابق صدر پرویز مشرف پر حملے کے الزام میں بھی گرفتار کیا گیا تھا تاہم بعد میں رہا کردیا گیا تھا۔

اس حوالے سے سی ٹی ڈی حکام کا کہنا تھا کہ چھاپہ مار ٹیم ملزم کو گرفتار کرنا چاہتی تھی لیکن ملزم کی جانب سے فائرنگ کی گئی جس کے جواب میں کی جانے والی فائرنگ میں وہ ہلاک ہوگیا۔

تاہم اہلِ خانہ نے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نورالحق نے فائر نہیں کیے اور وہ گرفتاری دینا چاہتا تھا لیکن سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے اسے موقع پر ہلاک کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف حملہ کیس: عدالت نے 3 ملزمان کو بری کردیا

بعدازاں مقامی افراد اور رشتہ داروں نے ملزم کی لاش کے ہمراہ امن چوک پر دھرنا دیا اور صوابی مردان والی روڈ بلاک کردیا، جس میں مقامی سیاستدانوں نے بھی شرکت کی اور اطراف کے علاقوں سے آنے والےلوگوں کی شمولیت کے بعد دھرنا بڑے احتجاج کی شکل اختیار کرگیا۔


یہ خبر 15 اگست 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں