روس اور تاجکستان نے افغانستان کے شمالی علاقے میں فضائی حملے کے الزم کی تردید کردی۔

افغان حکومت کی جانب سے شمالی صوبے میں روس یا تاجکستان کی جانب سے فضائی حملے کرنے کے الزام کے بعد دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ وہ اس حملے میں ملوث نہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق افغان میڈیا نے تخار صوبے کے ترجمان محمد جاوید ہجری کے حوالے سے کہا کہ افغانستان میں منشیات کے اسمگلروں اور تاجک بارڈر گارڈز کے درمیان اتوار کو جھڑپیں ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ 'غیر ملکی' جنگی طیاروں نے ملک میں مداخلت کی، تاہم وہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ یہ طیارے روس کے تھے یا تاجکستان کے۔

روس اور تاجکستان دونوں ممالک کے حکام نے کسی بھی حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی۔

پاکستان کے ساتھ ملنے والی مشرقی سرحد کے مقابلے میں تاجکستان کے ساتھ ملنے والی افغان سرحد پر کراس بارڈر جھڑپیں غیر معمولی بات ہے۔

تخار پولیس کے ترجمان خلیل اسیر کا کہنا تھا کہ جھڑپ کے بعد فضائی حملے میں طالبان کے 8 جنگجو ہلاک اور 6 زخمی ہوئے جبکہ جھڑپ میں دو تاجک بارڈر گارڈز ہلاک ہوئے۔

مزید پڑھیں: غزنی پر طالبان کی قبضے کی کوشش پر امریکا کا جوابی فضائی حملہ

آر آئی اے نیوز ایجنسی کو روسی وزیر دفاع نے بتایا کہ وہ افغانستان کے شمالی علاقوں میں کوئی آپریشن نہیں کر رہے۔

دوشنبے میں تاجک بارڈر گارڈز کے ترجمان کا کہنا تھا کہ تاجکستان نے افغانستان میں کوئی فضائی حملہ نہیں کیا اور نہ ہی دو گارڈز کی ہلاکت کی تصدیق کی۔

تاہم ایک عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جنگلات میں کام کرنے والے تین تاجک ورکرز پر افغانستان سے حملہ کیا گیا، جس میں دو ہلاک ہوگئے جبکہ تیسرا بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ جھڑپ اور فضائی حملہ ہوا تھا لیکن جھڑپ منشیات اسمگلرز اور تاجک بارڈر پر تعینات گارڈز کے درمیان ہوئی تھی، جبکہ فضائی حملہ اسمگلرز کے زیرِ استعمال جنگلاتی علاقے میں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ’ طالبان جنگجوؤں کو پڑوسی ممالک سے جھڑپ کی اجازت نہیں۔‘

افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل مارٹن او ڈونیل نے کہا کہ امریکی فوج نے اس علاقے میں کوئی فضائی حملہ نہیں کیا۔

اس حوالے سے افغان ایئرفورس کے ریٹائرڈ جنرل عتیق اللہ امرخیل کا کہنا ہے اس حملے کے ذمہ داران کی شناخت کی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’سہولیات کی کمی کے باعث افغانستان اپنی فضائی حدود کی نگرانی نہیں کر پاتا، لہٰذا امریکی فورسز اس معاملے کے خلاف کارروائی کرے۔‘

تبصرے (0) بند ہیں