اسلام آباد: گیس فراہم کرنے والی 2 کمپنیوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ صارفین پر ڈالا جائے تا کہ ایک سو 23 ارب ڈالر کے گردشی قرضوں کو کم کیا جاسکے جس کے باعث گیس کے پیدواری اور ترسیلی شعبے کو رقم کی کمی کا سامنا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے سینیٹر شبلی فراز کی سربراہی میں گردشی قرضوں کے لیے بنائی گئی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔

اجلاس میں سوئی سدرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو نے بتایا کہ گزشتہ حکومت کے 5 سالہ دورِ اقتدار میں صارفین کو فروخت کی جانے والی گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا جس کے باعث قرضوں میں اضافہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: گھریلو صارفین کیلئے گیس 200 فیصد مہنگی کرنے کی سفارش

ایس این جی پی ایل کی مینیجنگ ڈائریکٹر امجد لطیف کا کہنا تھا کہ لیکویفائیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کی امپورٹ سے مارچ 2015 سے گیس کی طلب و رسد کے فرق میں کمی واقع ہوئی ہے۔

دوسری جانب قیمت خرید اور قیمت فروخت میں فرق کی وجہ سے کمپنی کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا جبکہ عدالت میں جاری 2 پرانے مقدمات کے باعث 60 ارب روپے کے اضافی بوجھ کے سبب ایک سال میں کمپنی کو رقم کی کمی کا سامنا رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ کمپنی تقریباً 40 پیداواری یونٹوں سے 629 روپے فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) کی قیمت پر گیس خرید رہی تھی جبکہ 399 روپے فی یونٹ کے حساب سے فروخت کررہی تھی جس سے 2 سو 30 روپے فی یونٹ کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا تھا۔

مزید پڑھیں: گیس اصلاحات گھریلو صارفین پر اثر انداز ہوں گی

ان کا مزید کہنا تھا کہ کابینہ کی اقتصادی تعاون کی کمیٹی نے اس مسئلے کا حل تجویز کر کے معاملہ نفاذ کے لیے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو ارسال کردیا گیا تھا جس کے بعد اوگرا نے قیمتوں میں 30 فیصد اضافے کی سمری حکومت کو ارسال کی تھی لیکن حکومت تبدیل ہونے کے باعث نوٹفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ قوانین کے مطابق اگر وفاقی حکومت 40 دن میں قیمتوں کا تعین کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو اوگرا اس کا اعلان کرنے کی پابند ہے جو انہوں نے تاحال نہیں کیا۔

اس ضمن میں اوگرا کے فنانس عہدیدار نے کمیٹی کو بتایا کہ نگراں حکومت نے انہیں ٹیرف میں اضافہ کرنے سے روک دیا تھا کیوں کہ یہ ایک بڑا پالیسی اقدام ہے اور اس کا اعلان نئی حکومت کی جانب سے کیا جانا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں