لاہور: محکمہ سول ڈیفنس نے انکشاف کیا ہے کہ شہر کی 125 سے زائد عمارتوں میں فائر سسٹم، فائر الارم، ایمرجنسی دروازے اور آگ بجھانے کے آلات نہ ہونے کے باعث تقریباً 60 ہزار سے زائد شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔

گزشتہ روز علی ٹاور میں لگنے والی آگ سے متعلق ابتدائی تحقیقات مطابق کے پلازے کی انتظامیہ کو سول ڈیفنس کی جانب سے فائر سیفٹی کے ناقص انتظامات پر 28 اگست کو نوٹس جاری کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ علی ٹاور میں گزشتہ رات شدید آگ لگ گئی تھی، اس دوران ایک شخص نے پلازہ سے چھلانگ بھی لگادی جسے زخمی حالت میں اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

علی پلازہ میں آتشزدگی کے واقعے کے بعد میڈیا میں خبریں چلی تھیں کہ پلازہ میں سرکاری دفاتر اور اہم سرکاری ریکارڈ موجود تھا، تاہم اتوار کو علی گروپ کے ترجمان نے ان خبروں کی تردید کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں انسانی حقوق سیل قائم

رپورٹ کے مطابق عمارت میں سیفٹی آلات درست حالت میں تھے اور نہ ہی سینسر نصب تھے۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ آگ عمارت میں لگے چینج اور سوئچ میں لگی جس نے پورے بیسمنٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

سول ڈیفنس کی جانب سے پلازوں کی سیفٹی سے متعلق مرتب کی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ صوبائی دارالحکومت میں 200 کثیر المنزلہ عمارتوں میں رہائش پذیر اور کام کرنے والے 60 ہزار سے زائد شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔

مزیدپڑھیں: کراچی: سٹی کورٹ میں لگنے والی آگ کی تحقیقات کے لیے ٹیمیں تشکیل

سول ڈیفنس کی جانب سے ایل ڈی اے کو بتایا کہ اونچی عمارتوں میں ایمرجنسی میں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے باعث شہریوں کی زندگی کو درمیانے اور کم درجے کے خطرات لاحق ہیں۔

رپورٹ کے مطابق گلبرگ، ایم ایم عالم روڈ، فیروز پور روڈ اور دیگر علاقوں میں قائم بلند و بالا عمارتوں میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ایمرجنسی سیڑھیاں ہی نصب نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بارش سے لاہور ’ڈوب‘ گیا

اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ 30 کے قریب بڑی عمارتوں میں آگ بجھانے کے آلات ہی موجود نہیں ہیں اور دو درجن سے زائد عمارتوں میں ایمرجنسی ایگزٹ موجود ہے لیکن انہیں تالے لگا کر بند کیا ہوا ہے.

علی ٹاور میں کوئی سرکاری دفتر یا ریکارڈ نہیں تھا، ترجمان

علی گروپ کے ترجمان نے میڈیا پرچلنے والے خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ آتشزدگی کا شکار علی پلازہ میں کوئی بھی سرکاری دفتر موجود نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ علی ٹاور میں کسی دفتر کے ریکارڈ یا فرنیچر تک کو نقصان نہیں پہنچا۔

انہوں نے بتایا کہ علی ٹاور میں آگ عمارت کے عقب میں نصب تاروں کے پائپ میں لگی تھی۔

ترجمان علی گروپ کا کہنا تھا کہ ہمارےخلاف منفی پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ صاف پانی کمپنی اور پاور کمپنی کا ریکارڈ جلایا گیا ہے، اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ آگ ہم نے خود لگائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پلازہ ایل ڈی اے تمام بائی لاز کے مطابق بنایا گیا، پلازے میں موجود تمام افراد ہنگامی اخراج ذریعے باحفاظت باہر نکل آئے تاہم جس شخص نے چھلانگ لگائی اسے بارہا روکا گیا لیکن وہ پریشانی کے عالم میں کچھ سمجھ نہیں پایا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں