بلوچستان: لیویز فورس کی تنظیمِ نو کا منصوبہ منظور

اپ ڈیٹ 12 ستمبر 2018
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان علیانی نے کابینہ کے طویل اجلاس کی سربراہی کی—فوٹو: پریس سیکریٹری وزیراعلیٰ ٹوئٹر
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان علیانی نے کابینہ کے طویل اجلاس کی سربراہی کی—فوٹو: پریس سیکریٹری وزیراعلیٰ ٹوئٹر

کوئٹہ: بلوچستان کی کابینہ نے لیویز فورس کو مزید متحرک اور پیشہ ور بنانے کے لیے 4 سالہ منصوبے کی منظوری دے دی۔

صوبائی کابینہ کا اجلاس وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان علیانی کی سربراہی میں منعقد ہوا جو کئی گھنٹوں تک جاری رہا، جس میں لیویز فورس کے ڈائریکٹر جنرل طارق الرحمٰن کی پیش کی گئی تجاویز کا جائزہ لیا گیا۔

ذرائع کے مطابق لیویز فورس کی تنظیم نو کے حوالے سے پیش کیے گئے منصوبے پر 8 ارب روپے کی لاگت آئے گی اور یہ 4 مرحلوں میں مکمل ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: 1600 ترقیاتی منصوبوں میں ’سیاسی وابستگی‘ کی تحقیقات کا حکم

کابینہ نے پیش کی گئی تجاویز کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا کہ منصوبے پر عمل درآمد سے متعلق حتمی فیصلہ کابینہ کے آئندہ اجلاس میں کیا جائے گا۔

اس ضمن میں بریفنگ دیتے ہوئے طارق الرحمٰن کا کہنا تھا کہ لیویز فورس کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور اسے مزید متحرک فورس بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ صوبے کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز پر پورا اتر سکے۔

انہوں نے کوئیک رسپانس فورس بنانے کے ساتھ ساتھ انسدادِ دہشت گردی، ڈیجیٹل کمیونیکیشن، پاک چین اقتصادی رہداری (سی پیک) کے منصوبوں، انٹیلی جنس اور تحقیقات کے حوالے سے لیویز فورس کا علیحدہ ونگ اور بم ڈسپوزل اسکواڈ بنانے کی تجویز دی۔

مزید پڑھیں: بلوچستان: سرکاری اسکولوں کے اساتذہ ریاضی میں ’فیل‘

ڈی جی لیویز فورس کا مزید کہنا تھا کہ 23 ہزار ایک سو 32 اہلکاروں پر مشتمل لیویز فورس بلوچستان کے 90 فیصد حصے میں امن و امان کی بہتری کے لیے کام کرتی ہے، جس میں 13 ہزار2 سو 27 اہلکاروں نے جدید تربیت حاصل کی ہے جبکہ وفاقی لیویز کے بھی 6 ہزار 5 سو 60 اہلکار بلوچستان میں تعینات ہیں۔

صوبائی کابینہ نے مزید 2 ہزار وفاقی لیویز اہلکاروں کی بھرتی کے لیے وفاقی حکومت سے رابطہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔

اجلاس میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ سی پیک کے تحت جاری منصوبوں کے سبب سیکیورٹی اداروں کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے وفاقی حکومت کو لیویز اہلکاروں کی تعداد میں مزید اضافہ کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان حکومت کی 10 رکنی کابینہ کی حلف برداری

اس کے ساتھ گوادر کو مکمل طور پر ’اے‘ علاقہ قرار دینے کی بھی منظوری دی گئی، جہاں پولیس امن و امان قائم کرنے کی ذمہ دار ہوگی۔

کابینہ نے پاک فوج کے تعاون سے کوئٹہ کے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے قیام کی بھی منظوری دی، جسے آرمی کی زیر نگرانی 18 ماہ میں مکمل کیا جائے گا، آرمی نے اس منصوبے کے لیے زمین بھی فراہم کی ہے۔

کابینہ نے گوادر یونیورسٹی کے لیے ایک بل بھی تشکیل دیا جسے منظوری کے لیے اسمبلی اجلاس میں پیش کیا جائے گا جس کے لیے صوبائی حکومت 500 ایکڑ زمین جبکہ وفاقی حکومت 5 ارب روپے فراہم کرے گی۔

مزید پڑھیں: بلوچستان: تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ایمرجنسی نافذ

علاوہ ازیں محکمہ تعلیم کو غیر فعال پولی ٹیکنک، کیڈیٹ اور رہائشی کالجز میں تدریسی عمل کا آغاز کرنے اور کالجوں کی زیر تعمیر عمارتوں کو مکمل کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی۔


یہ خبر 12 ستمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں