سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے اجلاس میں جمعیت علماء اسلام (ف) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین نے ناموس رسالت سے متعلق سائبر الیکٹرانک کرائم ایکٹ میں ترمیم سے متعلق بل کی مخالفت کردی۔

سینیٹر روبینہ خالد کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کا اجلاس ہوا جس میں پاکستان الیکٹرانک سائبر کرائم ایکٹ کا ترمیمی بل وفاقی وزیر برائے آئی ٹی کی عدم موجودگی کی وجہ سے مکمل طور پر زیر غور نہیں آسکا۔

اجلاس میں جمیعت علماء اسلام (ف) کے سینیٹر عبدالغفور حیدری نے الیکٹرونک کرائمز ترمیمی بل سے متعلق موقف اختیار کیا کہ الیکٹرانک کرائمز بل کی شق نمبر 27 جی کو ترمیمی بل سے حذف کیا جائے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ کمیٹی کی توہین مذہب کے قانون میں تبدیلی کی سفارش

ان کا کہنا تھا کہ بل کی شق 27 جی کے مطابق توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے والے کو وہی سزا ہوگی جو اس جرم کی ہے جو دیگر قوانین کے منافی ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کے اجلاس میں جمعیت علماء اسلام (ف) اور پی ٹی آئی کے ممبران نے سائبر الیکٹرانک کرائم ایکٹ میں ناموس رسالت کے حوالے سے ترمیم کے بل کی مخالفت کی۔

انہوں نے مزید سوال اٹھایا کہ توہین مذہب قانون سے ہی امتیازی سلوک کیوں کیا جاتا ہے؟ دیگر قوانین کا بھی غلط استعمال ہوتا ہے وہاں تو کسی کو فکر لاحق نہیں ہوتی۔

سینیٹر رحمٰن ملک نے اظہارِ خیال کیا کہ توہین مذہب کا الزام لگانے والے شخص کی سزا کے معاملے کو ان کیمرا اجلاس میں زیر بحث لایا جانا چاہیے۔

جس پر سینیٹر عبدالغفور حیدری اور سینیٹر فدا محمد نے کمیٹی اجلاس سے واک آؤٹ کرتے ہوئے کہا کہ توہین مذہب قانون میں ترمیم کی اجازت نہیں دیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ توہین مذہب کے حوالے سے قوانین پہلے سے بنے ہوئے ہیں، ہم اس قانون میں ترمیم کے حق میں نہیں کیونکہ یہ ملک میں افراتفری کا باعث بنے گی۔

چیئرپرسن قائمہ کمیٹی سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ کوشش کریں گے کہ حکومت بل سے متنازع شق نکال کر بل دوبارہ پیش کرے۔

یہ بھی پڑھیں : توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والوں کے خلاف قانون بن گیا، جسٹس شوکت عزیز

تاہم اجلاس سے اراکان کے واک آؤٹ کے بعد سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کا اجلاس ملتوی کردیا گیا۔

خیال رہے کہ 16 فروری 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کا ترمیمی مسودہ پیش کیا گیا تھا جس کے مطابق توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے والے اور مرتکب ملزم کو ایک ہی سزا ملے گی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے مقننہ سے موجودہ قوانین میں ترمیم کرنے کی بھی سفارش کی تھی تاکہ گستاخی کے جھوٹے الزامات لگانے والوں کو بھی گستاخی کرنے والے کے برابر سزا دی جاسکے۔

سینیٹر مفتی عبدالستار نے کمیٹی کی جانب سے دی جانے والی سفارشات کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ توہین مذہب کے قانون پر بات نہ کی جائے اور ساتھ ہی الزام لگایا کہ توہین مذہب کے قانون کے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔

مفتی عبدالستار نے سوال کیا کہ کیا صرف توہین مذہب کا غلط استعمال ہو رہا ہے؟ کیا ملک میں قتل سے متعلق قانون کا غلط استعمال نہیں ہو رہا؟

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں