امریکا کے بعد آسٹریلیا نے بھی مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا عندیہ دے دیا۔

برطانوی اخبار 'دی گارجین' کے مطابق آسٹریلیا کے وزیراعظم اسکوٹ موریسن نے کہا کہ ‘وہ امریکی فیصلے کی پیروی کرنے میں آزاد ہیں تاہم مذکورہ فیصلے کو ایک سمجھدارانہ تجویز کے بطور لیا جائے’۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا فلسطینی مشن کو بند کرنا خطرے کی گھنٹی ہے، ترکی

واضح رہے کہ آسٹریلیا کے نئے وزیراعظم پروٹسٹنٹ میسح ہیں۔

ایک صحافی کے سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ ‘بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے میں ان کے مذہبی عقائد شامل نہیں ہیں’۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ ‘ہم اسرائیل اور فلسطین کے مابین تنازعات کے حل کے لیے کوشاں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی، کوئی قابل ذکر بہتری سامنے نہیں آسکی۔

آسٹریلیا کے وزیراعظم نے کہا کہ ‘موجودہ حالات مزید ایک سمت پر گامزن نہیں رکھے جاسکتے اور اس لیے مختلف نتائج کے لیے سوچنا ہوگا’۔

مزید پڑھیں: امریکا کا بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا عندیہ

واضح رہے 6 دسمبر2017 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شدید مخالفت اور یکطرفہ فیصلے کرتے ہوئے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

مذکورہ فیصلے کے تناظر میں انہوں نے کہا تھا کہ اس فیصلے سے بیت المقدس کی جغرافیائی اور سیاسی سرحدوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا جو تاحال اسرائیل اور فلسطین سے جڑی رہے گی۔

صہیونی ریاست کے مطالبے پر 1995 سے امریکا کا قانون تھا کہ واشنگٹن کے سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) منتقل کردیا جائے تاہم قانون کی منظوری کے بعد ہر 6 مہینے میں اس قانون پر عمل درآمد روک دیا جاتا تھا۔

آسٹریلوی وزیراعظم اسکوٹ موریسن کی جانب سے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی سے متعلق پڑوسی ملک انڈونیشیا نے سخت مخالفت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت کیوں تسلیم نہیں کیا جاسکتا؟

خیال رہے کہ انڈونیشیا آسٹریلیا کا انتہائی اہم پڑوسی اور مسلم ملک ہے۔

دوسری جانب جکارتا نے آسٹریلوی وزیراعظم کو خبردار کیا کہ فلسطین کے معاملے میں نئے سفارتی فیصلے پر دونوں ممالک کے مابین تجارتی معاہدوں کو ‘غیر فعال’ کیا جا سکتا ہے۔

اس حوالے سے آسٹریلیا میں فلسطین کے ترجمان نے عزت صالح عبدالہادی آسٹریلوی وزیراعظم کے فیصلے پر تنقید کی اور کہا کہ بیت المقدس میں سفارتخانے کی منتقلی کا فیصلہ ‘بہت افسوس ناک’ ہے۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ ملتوی

ان کا کہنا تھا کہ اسکوٹ موریسن کے فیصلے سے ٹرمپ انتظامیہ کو تقویت ملے گی۔

انہوں نے واضح کیا کہ آسٹریلیا کو اپنے فیصلے سے وقتی طور پر سیاسی مفاد حاصل ہو سکے گا لیکن یقیناً عالمی سطح اور عرب سمیت دیگر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات میں متاثر ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں