انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے اینٹی کرپشن یونٹ (اے سی یو) کے عہدیدار الیکس مارشل نے خطرناک حقیقت کا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرپشن میں ملوث اکثر بکیز بھارتی ہیں۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اس وقت سری لنکن کرکٹ کی جڑوں میں پیوست کرپشن کے حوالے سے تفتیش کر رہی ہے۔

سری لنکا کے عظیم کرکٹر سنتھ جے سوریا رواں ہفتے کے آغاز میں آئی سی سی کے اینٹی کرپشن قواعد کی خلاف کے الزامات کا سامنا کرنے والے پہلے مشہور کھلاڑی بن گئے تھے۔

سنتھ جے سوریا پر فکسنگ کے الزامات نہیں ہیں تاہم انہیں حکام کے ساتھ تفتیش میں معاونت نہ کرنے کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ہمیشہ شفافیت، دیانت پر عمل پیرا رہا، جے سوریا

آئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ نے حال میں مختصر طرز کی کرکٹ میں انگلینڈ اور سری لنکا کے کھلاڑیوں کے ساتھ کرپشن میں ملوث متحرک افراد کے حوالے سے معلومات جاری کی تھیں۔

آئی سی سی کے جنرل منیجر اے سی یو مارشل نے بکیز کے مقامی ہونے کے حوالے سے ایک سوال پر کرک انفو کو بتایا تھا کہ ‘سری لنکا میں مقامی اور بھارتی دونوں کرپٹ افراد موجود ہیں، دنیا کے دیگر اکثر علاقوں میں بکیز کی اکثریت بھارتیوں کی ہے’۔

مارشل کے انکشافات پاکستانی لیگ اسپنر دنیش کنیریا کی جانب سے بھارتی بک میکر انو بھٹ سے میچ فکس کرنے کے اعتراف کے بعد حیران کن نہیں ہیں، یہاں تک کہ جب 2000 میں پہلی مرتبہ میچ فکسنگ اسکینڈل سامنے آیا تھا تو کھلاڑیوں کے ارد گرد گھومنے والے کرپٹ بکیز کا تعلق بھی بھارت سے بتایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: دانش کنیریا کا 6 سال بعد میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کا اعتراف

مارشل کا کہنا تھا کہ ‘انگلینڈ اور سری لنکا کے کھلاڑیوں کو بریفنگ کے دوران ہم نے کرکٹ میں متحرک کرپٹ افراد کے نام اور تصاویر دکھائیں جو سری لنکا میں اور دنیا میں کہیں اور دونوں اطراف کے کھلاڑیوں کو گھیرنے کی کوشش کررہے تھے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے اس وقت فعال کرپٹ افراد کے حوالے سے معلومات کھل کر دکھائی ہیں، ہم نے ان کی تصاویر دکھائیں اور ان کی تفصیلات کے ساتھ نام بھی بتادیے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہم نے محسوس کیا کہ کھلاڑیوں کو معلومات دینے کے لیے یہ راستہ بہتر ہے، یہ عمل ٹیموں کی جانب سے نئی معلومات بہم پہنچانے کا باعث بن چکا ہے’۔

مارشل نے کہا کہ ‘آئی سی سی اس وقت 12 سے 20 متحرک کرپٹ افراد کی نگرانی کررہی ہے، جبکہ 6 افراد مشتبہ ہیں جن سے کھلاڑیوں کو ہوشیار رہنا چاہیے۔'

انہوں نے مزید کہا کہ ‘ہم نے انہیں 6 افراد بھی دکھائے، 12 سے 20 کرپٹ افراد انتہائی سرگرم ہیں جن کی ہم نگرانی کررہے ہیں، جن کی تصاویر دکھائی گئی ہیں وہ سب مرد ہیں لیکن چند خواتین بھی بھی اس پورے عمل میں ملوث ہیں’۔


یہ خبر 19 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں