مولانا سمیع الحق کون تھے؟

02 نومبر 2018
دارالعلوم حقانیہ سے تعلیم حاصل کی، اردو، عربی، پشتو سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔— فوٹو: اے ایف پی
دارالعلوم حقانیہ سے تعلیم حاصل کی، اردو، عربی، پشتو سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔— فوٹو: اے ایف پی

جمعیت علمائے اسلام(سمیع الحق) کے سربراہ مولانا سمیع الحق 1937 میں اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے اور دارالعلوم حقانیہ سے تعلیم حاصل کی جس کی بنیاد ان کے والد مولانا عبدالحق نے رکھی تھی۔

انہوں نے مدرسہ حقانیہ سے فقہ، اصول فقہ، عربی ادب، منطق، عربی گرامر، تفسیر اور حدیث کا علم سیکھا۔ انہیں اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور پشتو سمیت دیگر علاقائی زبانوں پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔

سند فضیلت و فراغت اور سند دورہ تفسیر قرآن کے ساتھ ساتھ شیخ الحدیث بھی تھے اور علما میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔

مزید پڑھیں: راولپنڈی: مولانا سمیع الحق قاتلانہ حملے میں جاں بحق

1988 میں مولانا عبدالحق کی وفات کے بعد مولانا سمیع الحق دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم بن گئے تھے، یہ بھی مانا جاتا ہے کہ طالبان کے متعدد سرکردہ رہنماؤں نے ان کے مدرسے سے تعلیم حاصل کی، جس کی وجہ سے انہیں ’فادر آف طالبان‘ بھی کہا جاتا تھا۔

سیاست میں قدم رکھنے کے بعد مولانا سمیع الحق جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کا اہم حصہ تھے اور اس جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے سے قبل 1970، 1977 اور 1985 کے انتخابات کی کامیابی سے مہم چلائی اور رکن اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔

لیکن سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں جمعیت علمائے اسلام میں اختلافات پیدا ہوئے، ان کے نتیجے میں مولانا سمیع الحق نے اپنی سابقہ جماعت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام(سمیع الحق گروپ) کی بنیاد رکھی۔

آپ 1974 کی تحریک ختم نبوت اور 1977 کی تحریک نظام مصطفیٰﷺ کا بھی اہم حصہ تھے۔ وہ 83-1985 تک جنرل ضیا الحق کی مجلس شوریٰ کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی امور کی صدارتی کمیٹی کے رکن بھی تھے۔

آپ 1985 میں سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے اور سینیٹ میں تاریخی شریعت بل پیش کیا۔ 1991 میں وہ ایک مرتبہ پھر اگلے 6سال کے لیے سینیٹر منتخب ہوئے اور کئی اہم کمیٹیوں کے رکن کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں۔

مولانا سمیع الحق کا سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں بھی اہم کردار رہا اور وہ طالبان کے تمام دھڑوں میں یکساں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: صدر، وزیر اعظم کی مولانا سمیع الحق کے قتل کی مذمت

ان کے مدرسہ حقانیہ سے افغان طالبان کے امیر ملا عمر نے بھی تعلیم حاصل کی جبکہ ان کے ملا عمر سے انتہائی قریبی مراسم تھے۔

آپ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے بانی اراکین میں شامل تھے جبکہ دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین بھی تھے۔

مولانا سمیع الحق نے پولیو کے خلاف حکومتی مہم میں اہم کردار ادا کیا تھا اور جب 2013 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے پولیو کے حفاظتی قطروں کی مہم کو غیراسلامی قرار دیا تھا, تو اس وقت مولانا سمیع الحق نے اس مہم کے حق میں فتویٰ جاری کیا تھا۔

دسمبر 2013 میں سمیع الحق کی جانب سے دیئے گئے فتوے میں کہا گیا تھا کہ مہلک بیماریوں کے خلاف حفاظتی قطرے پولیو کے خلاف بچاؤ میں مددگار ہوتے ہیں اور طبی ماہرین کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ان بیماریوں سے بچاؤکے قطرے کسی بھی طرح سے مضر نہیں ہیں۔

مولانا سمیع الحق کی سابق امیر جماعت اسلامی منور حسن کے ساتھ یادگار تصویر— فوٹو: اے پی
مولانا سمیع الحق کی سابق امیر جماعت اسلامی منور حسن کے ساتھ یادگار تصویر— فوٹو: اے پی

طالبان پر اثرورسوخ کے سبب افغانستان کی جانب سے مولانا سمیع الحق سے مستقل مطالبہ کیا جاتا تھا کہ وہ افغانستان میں امن اور سیاسی حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

وزیر اعظم عمران خان کا بھی مولانا سمیع الحق سے قریبی تعلق رہا جس کی وجہ سےموجودہ وزیر اعظم کو کئی مرتبہ ’طالبان خان‘ ک لقب دیا گیا۔

رواں سال سینیٹ الیکشن میں عمران خان نے جمعیت علمائے اسلام(س) کے سربراہ کی حمایت کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے باوجود مولانا سمیع الحق کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

مولانا سمیع الحق کی عمر 80سال سے زائد تھی اور آج راولپنڈی کی نجی سوسائٹی میں واقع گھر میں انہیں چھریوں کے وار کر کے ہلاک کردیا اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔

تبصرے (0) بند ہیں