اسلام آباد: محکمہ داخلہ کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کو آگاہ کیا گیا ہے کہ سماجی کارکن گلالئی اسمٰعیل کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ملک کی اہم خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کی تجویز پر درج کیا گیا۔

وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ خفیہ ادارے کی جانب سے گلالئی اسمٰعیل کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش ان کی مبینہ ریاست مخالف سرگرمیوں کے باعث کی گئی تھی۔

خیال رہےکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں گلالئی اسمٰعیل کی جانب سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نام خارج کرنے کی دائر درخواست کی سماعت ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس اطہر من اللہ کی گلالئی اسمٰعیل کی درخواست سننے سے معذرت

دورانِ سماعت ان کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ان کی مؤکلہ کا نام کسی بھی مقدمے میں درج نہ ہونے کے باوجود انہیں برطانیہ سے واپسی میں حراست میں لیا گیا۔

جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ متعلقہ ریکارڈ کی چھان بین کے بعد ہی ان دعوؤں کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔

اپنی درخواست میں گلالئی اسمٰعیل نے اپنے پاسپورٹ اور سفری دستاویزات کی واپسی کا مطالبہ کیا جو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ان کے 12 اکتوبر کو پاکستان واپس پہنچنے پر ضبط کرلی تھیں اس کے ساتھ انہیں باقاعدہ طور پر اسلام آباد کے سیکٹر جی-13 میں واقع ایف آئی اے کے دفتر میں حراست میں بھی رکھا گیا۔

مزید پڑھیں: سماجی رضا کار گلالئی اسمٰعیل عبوری ضمانت پر رہا

درخواست میں کہا گیا ہے کہ گلالئی اسمٰعیل غیر سرکاری تنظیم (این جی او) ’اویئر گرلز کی چیئر پرسن ہیں اور خواتین کو بااختیار بنانے کی کوششوں پر متعدد ملکی اور غیر ملکی اعزازات حاصل کرچکی ہیں۔

درخواست کے مطابق ایف آئی اے نے انہیں برطانیہ سے وطن واپس آنے پر ان کی پشتون تحفظ تحریک سے مبینہ وابستگی اور مبینہ ریاست مخالف تقاریر پر حراست میں لیا۔

درخواست گزار کا موقف تھا کہ وہ ایک محبِ وطن پاکستانی ہیں اور کبھی بھی ریاست مخالف سرگرمیوں کا حصہ نہیں رہیں۔

یہ بھی پڑھیں: صوابی کی گلالئی اسماعیل کے لیے برطانیہ کا ایوارڈ

گلالئی اسمٰعیل کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نےانہیں اپنے دفاع کا موقع فراہم کیے بغیر ان کا نام ای سی ایل میں درج کیا اور ایف آئی اے نے ان کا پاسپورٹ ضبط کرلیا۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کا نام ای سی ایل سے خارج کیا جائے جبکہ ایف آئی اے کو ان کاپاسپورٹ واپس کرنے کے احکامات بھی دیے جائیں۔


یہ خبر 7 نومبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں