اسلام آباد: اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و ذراعت (ایف اے او) کی نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پنجاب کے خطے میں اسموگ اور کسانوں کی جانب سے چاولوں کی باقیات کو نذرِ آتش کرنے میں براہِ راست تعلق ہے۔

پاکستان میں ایف اے او کے نمائندے ’مینا ڈولاچاہی‘ کا کہنا تھا کہ تحقیق میں اسموگ کی وجوہات کا سائنسی بنیادوں پر جائزہ لیا گیا جس میں اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ فصلوں کی باقیات جلانا اسموگ کا ایک سبب ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس تحقیق سے زراعت کے سبب بننے والے اسموگ کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب کااسموگ سےنمٹنے کیلئے بھارتی ہم منصب کو دعوت

مذکورہ تحقیق حکومتِ پنجاب کے تعاون سے اسموگ کا جائزہ لینے والے ایک منصوبے کے تحت کی گئی، جس میں یہ بات سامنے آئی کہ اسموگ محض فضائی آلودگی کے سبب نہیں بنتا بلکہ اس میں دیگر موسمیاتی اور فضائی عوامل بھی کارفرما ہیں۔

خیال رہے کہ ایف اے او نے حکومتِ پنجاب کی درخواست پر 2017 میں اس منصوبے کا آغاز کیا تھا جو اب مکمل ہوا ہے، یہ شواہد پر مبنی اپنی طرز کی پہلی تحقیق ہے جس کی رپورٹ آئندہ ہفتے حکومت کو ارسال کردی جائے گی۔

ایف اے او کے عالمی تکنیکی ماہرین نے بھی جغرافیائی عناصر، طریقہ کار، اور دیگر پاکستانی ماہرین اور اداروں کی مدد سے اس تحقیقاتی رپورٹ پر نظرِ ثانی کی جبکہ اس موقع پر پنجاب کی وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے نمائندے بھی موجود تھے۔

مزید پڑھیں: لاہور ایک بار پھر اسموگ کی لپیٹ میں

اس ضمن میں ماہرین سے گفتگو کرتے ہوئے ایف اے او کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ ادارہ اسموگ کے خاتمے کی تدابیر اور حکمتِ عملی وضع کرنے کے لیے حکومتِ پنجاب کی کوششوں میں تعاون کرتا رہے گا۔

واضح رہے کہ 2015 میں پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے سبب ہونے والی اموات کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ تھیں، اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق فضا میں موجود زہریلے زرات کے باعث ہزاروں لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

یہ فضائی آلودگی موسمِ سرما کے دوران صوبہ پنجاب میں بہت سے شہروں بالخصوص لاہور میں صحتِ عامہ اور معاشی مشکلات کا باعث بنتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے بیشتر شہروں میں اسموگ سے زندگی مفلوج

خیال رہے کہ اسموگ فضائی آلودگی کی وہ قسم ہے جو انسانی جانوں کے لیے سخت خطرے کا باعث بنتی ہے تاہم اس کا سبب صرف فضا میں زہریلے زرات کی موجودگی نہیں بلکہ موسمیاتی اور ماحولیاتی صورتحال بھی اس میں کردار ادا کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ ایف اے او جغرافیائی صورتحال اور تکنیک کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دریائے سندھ میں پانی کا جائزہ بھی لے رہی ہے۔


یہ خبر 7 نومبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں