اسلام آباد: سابق وزیرِاعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے احتساب عدالت میں کہا ہے کہ 1999 میں مارشل لا کے بعد سرکاری ایجنسیوں نے شریف خاندان کے کاروبار کا ریکارڈ غیر قانونی طور پر اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کی جہاں نواز شریف نے مزید سوالات کے جوابات دیے۔

سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ لوگ ان سے تعزیت کے لیے آرہے ہیں، بذریعہ سڑک انہیں لاہور بھی جانا ہے جس پر جج ارشد ملک نے کہا کہ جتنا بیان ان کا مکمل ہوجائے گا اتنے پر دستخط کروالیے جائیں گے۔

العزیزیہ ریفرنس میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے نواز شریف نے اپنا بیان شروع کیا اور عدالت کو بتایا کہ یہ بات سب کو معلوم کہ مجھے، اہلیہ اور بچوں کے ساتھ دسمبر 2000 میں جلا وطن کردیا گیا تھا اور ہمیں بیرون ملک رہنے پر مجبور کیا گیا۔

مزید پڑھیں: العزیریہ ریفرنس: نواز شریف نے 45 سوالات کے جوابات دے دیے

نوازشریف نے خاندان کی جائیداد سے متعلق بات کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ یہ 1999میں پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا کہ ان کے اہلِ خانہ کی تمام جائیدادیں ضبط کرلی گئیں بلکہ 1972 میں بھی رات کے اندھیرے میں اتفاق فاؤنڈریز کو قومیا لیا گیا تھا۔

نواز شریف نے کہا کہ اس وقت تو میں سیاست میں بھی نہیں تھا تب بھی کسی نے ہم سے یہ تک نہیں پوچھا کہ کیا ہمارے پاس کھانے کو کچھ ہے یا نہیں ہے؟

سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ اتفاق فاؤنڈری کو قومیانے کے بدلے میں شریف خاندان کو کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا گیا تھا۔

نوازشریف نے جج ارشد ملک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’1999کے مارشل لا کی کہانی بہت مختلف ہے موقع ملا تو پھر کبھی اس کے بارے میں بتاؤں گا‘۔

یہ بھی پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس: خواجہ حارث کا ڈی جی نیب،احتساب عدالت کے جج کی ملاقات پر اعتراض

انہوں نے عدالت کو بیان دیتے ہوئے بتایا کہ 1999 کے مارشل لا کے بعد شریف خاندان کے کاروبار کا تمام ریکارڈ ایجینسیوں نے غیرقانونی تحویل میں لے لیا تھا۔

سابق وزیرِ اعظم نے بتایا کہ ’ریکارڈ اٹھائے جانے کے خلاف تھانے میں شکایت درج کروائی گئی لیکن متعلقہ تھانے کی جانب سے ہماری شکایت پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میری جلاوطنی کے دنوں میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے غیر قانونی طریقے سے ہماری خاندانی رہائش گاہ کو تحویل میں لے لیا تھا‘۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں موجود ان کی رہائش گاہ کو اولڈ ہاؤس میں تبدیل کردیا گیا جبکہ نیب نے صبیحہ عباس اور شہباز شریف کے نام جائیداد کے کاغذات قبضے میں لے لیے تھے۔

مزید پڑھیں: احتساب عدالت: نواز شریف نے پیشیوں کی سنچری مکمل کرلی

عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے نواز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خاندان کی ملکیت میں موجود رمضان شوگر ملز اور چوہدری شوگر ملز کو مذموم مقاصد کے تحت کام کرنے کی اجازت دی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ چوہدری شوگر ملز سے 11 کروڑ روپے جبکہ رمضان شوگر ملز سے 50 لاکھ روپے نکلوائے گئے اور یہ رقم اب تک واپس نہیں کی گئی۔

نوازشریف نے عدالت کو بتایا کہ جلا وطنی کے بعد پاکستان واپسی پر انہوں نے نیب کے اقدامات کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور عدالتِ عالیہ نے نیب کے اقدامات کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

سابق وزیرِ اعظم نے اعتراف کیا کہ یہ کہنا بالکل درست نہیں کہ جلا وطنی کے دوران سعودی عرب میں ہمارے پاس پیسہ یا وسائل موجود نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھیں: احتساب عدالت: العزیزیہ، فلیگ شپ ریفرنس ایک ساتھ آگے بڑھانے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ میرے والد نے پیسوں کا انتظام کیا اور جلا وطن ہونے والے خاندان کے افراد کی ضروریات کو پورا کیا‘۔

سماعت کے دوران وقفہ ہوا، تاہم کچھ دیر بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو نواز شریف نے اپنے وکیل خواجہ حارث سے سوال نامے پر مشاورت کی۔

نواز شریف نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کے بیانات پر اعتراض اٹھایا اور بتایا کہ میرا نام کہیں کسی بھی دستاویز میں نہیں ہے۔

سابق وزیرِ اعظم نے قطری شہزادے کے خطوط سے لاتعلقی کا بھی اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں کسی بھی حیثیت سے ٹرانزیکشن کا حصہ نہیں رہا۔

نواز شریف کے بیان ریکارڈ کروانے کے بعد ان کے تحریری جوابات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنالیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں