بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں نے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مند بنانے کے لیے 24 نومبر (آج) جمع ہونے کی کال دے دی۔

الجزیرہ میں شائع رپورٹ کے مطابق ملک بھر سے ہندوؤں کو ایودھیا میں آج جمع ہونے کا کہا گیا تاکہ حکومت پر بابری مسجد کی جگہ رام مند کی تعمیر شروع کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد کے انہدام کی بیسویں برسی

واضح رہے کہ پہلے مغل بادشادہ بابر کے حکم پر 1582 میں بابری مسجد تعمیر کی گئی جسے انتہاپسند ہندوؤں نے 6 دسمبر 1992 کو شہید کردیا تھا۔

ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ جگہ ان کے بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔

ہندومسلم کش فسادات میں تقریباً 2 ہزار افراد القمہ اجل بن چکے ہیں۔

ہندوؤں کی جانب سے ایودھیا میں جمع ہونے کی کال کے فوراً بعد ہی تقریباً 4 ہزار مسلمان اپنے گھر اور کاروبار چھوڑ کر محفوظ مقام پر ہجرت کرگئے۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد تنازع حل نہ ہونے پر بھارت میں خانہ جنگی کا خطرہ، ثالث کی تنبیہ

فیض آباد کے ضلعی چیف انیل پتکھ نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہوگی کہ حالات پر امن رہیں اور اسی مقصد کے لیے مقامی انتظامیہ کو الرٹ کردیا گیا ہے اور سیکیورٹی کے انتظامات بھی فعال ہیں۔

انہوں نے رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی نقص امن کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔

دوسری جانب اترپردیش پولیس کے ترجمان وویک ترپاتی نے بتایا کہ اتوار کو جمع ہونے والے لوگوں کی موجودگی کے پیش نظر تقریباً 900 پولیس کی اضافی نفری ، فوجیوں اور کمانڈوز کو طلب کرلیا گیا۔

مزیدپڑھیں: بابری مسجد کی برسی پر سخت سیکیورٹی

جولائی 2016 کو ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی مہم چلانے والے بااثر ہندو راہب نرتیا گوپال داس کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے یہ مندر نریندر مودی کے دور میں تعمیر ہوجائے گا۔

مودی کا موقف

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے لیے اس حوالے سے کافی مشکل ہے، اگر وہ مندر کی تعمیر کا گرین سگنل دیتے ہیں تو اپنے حامیوں کو تو خوش کردیں گے لیکن ملک بھر میں مظاہرے شروع ہوجائیں گے۔

1992 میں جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا تو صرف ممبئی میں ایک ہزار افراد جان سے گئے تھے، جوابی حملوں میں مزید 257 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔

96 سالہ محمد ہاشم انصاری دسمبر 1992 کی اُس صبح کو یاد کرتے ہیں جب مشتعل ہجوم نے بابری مسجد پر حملہ کردیا تھا، انہوں نے اپنے گھر سے مسجد کے گنبد گرتے دیکھے۔

بابری مسجد کو 1992 میں منہدم کیا گیا تھا... فوٹو: بشکریہ دی ہندو
بابری مسجد کو 1992 میں منہدم کیا گیا تھا... فوٹو: بشکریہ دی ہندو

ان کا کہنا ہے کہ وہ بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کے خلاف ہیں تاہم وہ کہتے ہیں کہ ہندو تنظیمیں ایسا کرنے کا منصوبہ رکھتی ہیں، وہ اقتدار میں ہیں اور جو چاہے کرسکتے ہیں۔

نریندر مودی کے ایک قریبی ساتھی کا کہنا ہے کہ ریاستی انتخاب کے لیے مہم کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی مندر کے حوالے سے کوئی بات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے، وہ ملکی ترقی پر بات کریں گے۔

جون میں اپنی 78 ویں سالگرہ کے موقع پر نرتیا گوپال داس نے ملک کے بااثر ترین ہندو مذہبی رہنماؤں سے نجی ملاقاتیں کیں اور اپنا پیغام پہنچایا۔

ملاقات میں موجود ایک شخص کے مطابق انہوں نے پیغام دیا کہ مندر کی تعمیر کے معاملے پر مذہبی اور سیاسی موقف یکساں ہونا چاہیے، ہر شہر میں مذہبی رہنماؤں کو رام مندر کی اہمیت اجاگر کرنی چاہیے۔

آر ایس ایس کی لابنگ

بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرپرست تنظیم سمجھی جانے والی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے بھی اپریل میں ایوان بالا کے انتخابات کے لیے جارح مزاج سیاستدان سبرامانیان سوامی کے لیے لابنگ کی تھی۔

دو ہفتوں بعد ہی سوامی نے پارلیمنٹ میں نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل نے ایودھیا میں مندر کی تعمیر کے حوالے سے فیصلہ لینے کی موثر کوششیں نہیں کیں۔

وشوا ہندو پرشاد کے ترجمان شرد شرما ایک مندر میں موجود ہیں جس کی دیوار پر رامائن لکھی ہے—فوٹو/ رائٹرز
وشوا ہندو پرشاد کے ترجمان شرد شرما ایک مندر میں موجود ہیں جس کی دیوار پر رامائن لکھی ہے—فوٹو/ رائٹرز

وشوا ہندو پرشاد کے ترجمان شرد شرما ایک مندر میں موجود ہیں جس کی دیوار پر رامائن لکھی ہے—فوٹو/ رائٹرز نرتیا گوپال داس نے بھی مندر کی تعمیر کے حوالے سے نریندر مودی کو امید کی کرن قرار دیا، ان کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں نریندر مودی کا وزیراعظم ہونا خدا کا تحفہ ہے۔

ادھر وشوا ہندو پرشاد (وی ایچ پی) یا ورلڈ ہندو کونسل کے ترجمان شرد شرما کا کہنا ہے کہ مندر کی تعمیر کا دن لوگوں کی توقع سے جلد آجائے گا اور نریندر مودی کی سربراہی میں ہمیں لگ رہا ہے کہ یہی درست وقت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں