اسلام آباد: سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے توانائی کو بتایا گیا کہ بجلی کی متعدد تقسیم کار کمپنیوں کے تقریباً 20 ہزار ملازمین کے خلاف بجلی چوری میں اعانت فراہم کرنے کے خلاف مقدمات درج کیے جاچکے ہیں۔

کمیٹی کا اجلاس سینیٹر فدا محمد کی سربراہی میں منعقد ہوا جس میں توانائی کے خصوصی سیکریٹری حسن نثار جامی نے بتایا کہ وزارت توانائی کی جانب سے ان ملازمین کے خلاف کی جانے والی کارروائی میں تاخیر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی سست روی کے باعث ہورہی ہے۔

کمیٹی اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ گزشتہ 6 ماہ کے عرصے میں بجلی کے نادہندگان سے 15 کروڑ روپے وصول کیے جاچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بجلی کے ناقص ترسیلی نظام سے قومی خزانے کو 213 ارب کا نقصان

اس سلسلے میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے حکام نے کمیٹی کو وزارت توانائی کی دی گئیں ہدایات پر عملدرآمد میں پیش آنے والی دشواریوں سے آگاہ کیا۔

لاہور الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (لیسکو) کا کہنا تھا کہ ایک مقامی اسٹیل مل کے مالک کے خلاف بجلی چوری پر مقدمہ درج کیا گیا لیکن مالک کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ سے لیے جانے والے اسٹے آرڈر کی مدت ختم ہونے کے باوجود پنجاب پولیس اب بھی مالک کو گرفتار کرنے اور اس کے خلاف کارروائی میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہی ہے۔

اس کے علاوہ اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ وزارت توانائی اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں ایک جامع منصوبہ مرتب کررہی ہیں تا کہ بجلی چوری کے واقعات میں کمی آسکے۔

مزید پڑھیں: پنجاب: بجلی اور گیس چوری کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا آغاز

تاہم اجلاس میں جب اراکین نے یہ پوچھا کہ بجلی کے جن فیڈرز سے بے تحاشہ بجلی چوری کی جارہی ہے وہاں 12 گھنٹے سے زائد بجلی کیوں فراہم کی جارہی ہے تو حکام نے بتایا کہ پالیسی فیصلے وفاقی کابینہ بناتی ہے لیکن اراکین نے مزید تفصیلات پر زور دیا تو یہ انکشاف سامنے آیا کہ وزارت توانائی اس بارے میں سمری کابینہ کو ارسال ہی نہیں کرسکی۔

جس پر کمیٹی نے وزارت توانائی کو کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے سمری ارسال کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ جہاں فیڈرز سے سب سے زیادہ بجلی چوری کی جارہی ہے وہاں صرف 2 گھنٹے بجلی فراہم کی جائے۔

اس موقع پر سینیٹر نعمان وزیر نے مطالبہ کیا کہ بجلی چوری کی روک تھام کے لیے تشکیل دیا جانے والا منصوبہ حقیقت پسندانہ اور صارفین کے لیے مالی طور پر قابلِ عمل ہو۔

یہ بھی پڑھیں: خسارے سے نمٹنے کیلئے بجلی چوروں اور نادہندگان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ

اجلاس میں بتایا گیا کہ پشاور الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کمپنی (پیسکو) کو 3 ہزار کلومیٹر پر محیط اسمارٹ کیبل کے لیے سروے کی اجازت دے دی گئی ہے جبکہ لیسکو اور اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (آئیسکو) کی جانب اسمارٹ کیبلز اور ڈیجیٹل میٹرز لگا دیے گئے ہیں۔


یہ خبر 28 دسمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (1) بند ہیں

[email protected] 5 Dec 29, 2018 04:23pm
Sindh kherpur me q nahe karte apreshan bijle chore dosire karte he or bil hamara ziyada ate parechan ho gy ham in wabta walon se