پاکستان سے تعاون کیلئے تیار ہیں، آئی ایم ایف سربراہ کی یقین دہانی

اپ ڈیٹ 10 فروری 2019
وزیراعظم عمران خان کی آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ سے ملاقات— فوٹو: ڈان نیوز
وزیراعظم عمران خان کی آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ سے ملاقات— فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم عمران خان نے دبئی میں ورلڈ گورنمنٹ سمٹ کی سائیڈ لائن میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈے سے ملاقات کی۔

ملاقات سے متعلق پاکستانی حکام نے کوئی تفصیلات جاری نہیں کیں تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق کرسٹین لیگارڈے نے ’وزیراعظم سے ملاقات کو اچھی اور سود مند‘ قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: کیا پی ٹی آئی کے پاس آئی ایم ایف ہی آخری آپشن ہے؟

کرسٹین لیگارڈے نے کہا کہ ’ملاقات میں آئی ایم ایف کے امدادی پیکج کے تناظر میں حالیہ اقتصادی پیش رفت اور امکات پر بات چیت ہوئی‘۔

انہوں نے وزیراعظم سے ملاقات میں زور دیا کہ ’آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے‘۔

کرسٹین لیگارڈے نے کہا کہ پاکستان ’فیصلہ کن پالیسیوں اور اقتصادی اصلاحات کے لیے مضبوط پیکج‘ سے اپنی معیشت کو بحال کرسکتا ہے۔

کرسٹین لیگارڈ نے پاکستان تحریک انصاف کی پالیسی کے بارے میں کہا کہ ’غریبوں کو تحفظ اور مضبوط گورننس کے ذریعے لوگوں کا معیار زندگی بہتر کیا جاسکتا ہے‘۔

مزیدپڑھیں: پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر ہے، وزیر خزانہ

واضح رہے کہ گزشتہ برس 20 اکتوبرکو وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا تھا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے لیا جانے والا یہ آخری آئی ایم ایف پروگرام ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ آئی ایم ایف پروگرام مجموعی طور پر 19 واں جبکہ گزشتہ 30 سالوں کے درمیان یہ 13 واں پروگرام ہے جو انشا اللہ آخری پروگرام ثابت ہوگا۔

بعدازاں 20 نومبر خبر آئی کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان بیل آؤٹ پیکج کی شرائط کے حوالے سے کچھ معاملات پر اختلافِ رائے موجود رہا جس میں توانائی کی قیمتوں میں اضافی ٹیکسز اور چینی تعاون کا مکمل اخراج شامل ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے بتایا تھا کہ ہماری اور آئی ایم ایف کی پوزیشن میں اب بھی فرق موجود ہے تاہم انہوں نے بات چیت کو مثبت اور خلیج کو کم کرنے والی قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی معیشت بیمار ہے، اس کا بائی پاس ہو رہا ہے، وزیر خزانہ

سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو 3 ارب ڈالر امداد اور 3 ارب ڈالر کی مؤخر ادائیگیوں پر تیل کی فراہمی جبکہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے 3 ارب ڈالر امداد کا اعلان کیا جاچکا ہے۔

گزشتہ سال نومبر میں دورہِ چین کے بعد وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ مزید امداد حاصل ہونے کی توقع ہے البتہ اس کے حجم اور نوعیت کے بارے میں طے کرنا باقی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دو سالوں میں کرنٹ اکاؤنٹ اور مالیاتی خسارہ بڑھنے کی وجہ سے معیشت بحران کا شکار ہوگئی ہے، حکام کے مطابق پاکستان کو ان دونوں بحرانوں سے نمٹنے کے لیے کم از کم 12 ارب ڈالر درکار ہیں اور اس تناظر میں آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ناگزیر ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں