کلبھوشن کیس: بھارت پاکستان کے سوالات کا جواب دینے میں ناکام

اپ ڈیٹ 27 فروری 2019
عالمی عدالت انصاف  6 ماہ میں کیس کا فیصلہ سنائے گی — فوٹو: ڈان نیوز
عالمی عدالت انصاف 6 ماہ میں کیس کا فیصلہ سنائے گی — فوٹو: ڈان نیوز

عالمی عدالت انصاف میں بھارتی جاسوس سے متعلق کیس کی سماعت میں بھارت، کلبھوشن یادیو سے متعلق سوالات کے جواب دینے میں ناکام ہوگیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف میں پاکستانی وکیل خاور قریشی نے بھارت کے خلاف اپنے جواب الجواب کے آغاز میں ہی اپنے جارحانہ دلائل کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ان کے الفاظ کو نہیں بگاڑا جائے، بھارت ‘خوابوں کی دنیا’ میں رہ رہا ہے اور پاکستان کے خلاف لگائے گئے الزامات پر اٹھائے گئے سخت سوالات کے جواب دینے میں ناکامی سے بدستور توجہ ہٹانے کی کوشش کررہا ہے۔

پاکستان کے وکیل نے گزشتہ روز سماعت میں حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بھارت دعویٰ کرتا ہے کہ یہ کیس صرف قونصلر رسائی سے انکار سے متعلق ہے جبکہ یہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔

خاور قریشی نے بھارت کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سیکریٹری کے الفاظ کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرکاری پوزیشن کہنے کو مضحکہ خیز قرار دیا۔

انہوں نے کلبھوشن یادیو کے مبینہ اغوا کے دعوے کو ’ بھارتی فکشن‘ قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر متل کی ناکامی پر روشنی ڈالی جو بھارتی جاسوس کے مبینہ اغوا سے متعلق ایرانی حکام سے بات کرنے کی کوشش میں ناکام ہوگئے تھے۔

خاور قریشی نے کہا کہ ’ تفصیلات فراہم کرنے سے فکشن بے نقاب ہوجائے گا‘۔

مزید پڑھیں: بھارت کلبھوشن یادیو کی رہائی کے مطالبے سے دستبردار

پاکستانی وکیل نے بھارت کی جانب سے اپنے حکام کی ’تصاویر ‘ کی مدد سے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی نشاندہی بھی کی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے عدالت میں صرف ایک تصویر دکھائی تھی جو کہ بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کی تھی۔

تاہم یہ بات بھی اہم تھی کہ بھارت نے فروری 2014 میں کی گئی تقریر کے کسی پہلو کو مسترد نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے باہمی قانونی مشاورت (ایم ایل اے) درخواستوں کی تعداد سے متعلق الجھن بھی اس کی نقطہ نظر سے ہٹنے کی ایک اور مثال تھی، کہ وہ 18 تھی یا 40 ایم ایل اے درخواستیں تھیں۔

خاور قریشی کے مطابق بھارت کی جانب سے ’ الفاظ سے کھیلنے کی کوشش بھی کی گئی ‘،انہوں نے بھارت کی جانب سے بھارتی صحافیوں کے لیے قائل کرنے والے اور الزامات سے پاک جیسے الفاظ کی طرف نشاندہی بھی کی کہ خاور قریشی نے کسی مقام پر ان الفاظ کا استعمال نہیں کیا۔

انہوں نے بھارت کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے پاسپورٹ کے مسئلےکو فضول اور قانونی بنیادوں کے برعکس قرار دینے کے دعوے پر سوال کیا کہ ’ ہم کیا کرنے آئے ہیں؟‘

یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے کلبھوشن کے پاسپورٹ سےمتعلق برطانوی رپورٹ عالمی عدالت میں پیش کردی

خاور قریشی کے مطابق ’ پاکستان کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب واضح، توجہ طلب شواہد پر مبنی تھے‘،در حقیقت بھارت کی جانب سے ’ کھوکھلا رد عمل دیا گیا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ’ پکڑو اگر مجھے پکڑسکتے ہو‘کی سوچ ہے، بھارت حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے قانون توڑنے کی تلاش میں ہے‘۔

خاور قریشی نے ایک مرتبہ نئی دہلی کو خیالی دنیا (ونڈر لینڈ) میں ہونے پر تنبیہ کی تھی۔

پاکستانی وکیل نے ویانا کنوشن میں جاسوسی سے متعلق شق پڑھتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کسی صورت وہ نہیں چاہتا جو دلیل بھارت پیش کرتا ہے۔

خاور قریشی نے مزید کہا کہ ’ یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک بھارت یہ نہ مان لے کہ ویانا کنونشن کے آرٹیکل 5 (اے) ( عالمی قوانین کی تعمیل) اور آرٹیکل 55 (ریاست کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز )کے کوئی معنی نہیں ہیں جو بھارت کے بنیادی موقف کے برابر ہے کہ ’ ریاست کا رویہ غیر متعلقہ ہے‘۔

دلائل کے دوران پاکستانی وکیل نے ہریش سیلو کی جانب سے پاکستان پر غیر مہذب زبان استعمال کرنے کے الزامات کے جواب میں کہا کہ پاکستان نے اپنا وقار برقرار رکھا ہے اور بھارت کے ’لسانی کھیل‘ کی صورت میں خود کو نشانہ بنائے جانے کی اجازت نہیں دیتا۔

بھارت نے 20 فروری کو دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ میں پشاور ہائی کورٹ کے ملٹری کورٹس کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی ہوئی ہے، ہریش سیلو نے کہا کہ پاکستان نے یہ حقیقت چھپا کر عالمی عدالت کو گمراہ کیا ہے۔

ہریش سیلو کی اس دلیل کا جواب دیتے ہوئے خاور قریشی نے کہا کہ کوئی فیصلہ کسی اپیل کا حصہ ہونے سے بے جوڑ یا اپنی اہمیت کیسے کھوسکتا ہے۔

خاور قریشی نے مزید کہا کہ ’تمام عدالتی نظام میں اس وقت برقرار رہتا ہے جب تک کسی اعلیٰ عدالت کی جانب سے اس کے خلاف فیصلہ نہ آجائے ‘۔

مزید پڑھیں: کلبھوشن کیس: عالمی عدالت انصاف میں بھارتی وکلا کے دلائل مکمل

اس سے قبل اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان نے پاکستان کے عدالتی نظام میں نظرثانی کے عمل کی عدم موجودگی کے نام پر ہونے والی تنقید کا سخت جواب دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔

اٹارنی جنرل نے ملک کے ’ انتہائی مضبوط نظام‘ سے متعلق واضح کیا کہ ’ تمام عدالتیں، سول ہوں یا کرمنل کورٹس،اسپیشل کورٹس،اسپیشلائزڈ ٹریبونل یا ملٹری کورٹ، یہ تمام آئین کے مطابق پارلیمنٹ کے مختلف ایکٹ کے تحت تشکیل دی جاتی ہیں‘۔

پاکستان میں ہونے والی خفیہ عدالتی کارروائی پر بھارت کی تنقید سے متعلق انہوں نے کہا کہ ’ ریاستی سلامتی، رازداری، ریاستی رازوں کی وجہ سے بعض ٹرائل کو پبلک نہیں کیا جاسکتا،یہ تقریباً تمام دائرہ کار کے حوالے سے سچ میں جس میں بھارت بھی شامل ہے‘۔

انور منصور خان نے پاکستان کی ملٹری کورٹس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ آئین کے تحت بنائی اور چلائی جاتی ہیں جس میں شواہد کے قوانین، کرمنل پروسیجر کوڈ اور اسی طرح کے قوانین شامل ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ فوجی عدالتیں کچھ وجوہات کی بنیاد پر اہل نہیں یا قانون سے بالاتر ہیں‘۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھارت کی جانب سے جس ریلیف کی درخواست کی گئی ہے وہ اس عدالت کے اختیارات سے باہر ہے،انہوں نے سویلین عدالتوں میں بھارت کے دوبارہ ٹرائل کے مطالبے پر بھی روشنی ڈالی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ میں یہ نقطہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ کلبھوشن کے خلاف شہری دائرہ کار کے تحت بھی ایف آئی آر موجود ہے اور اس سزا کے علاوہ ان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ بھی بنتا ہے‘۔

پاکستان کے اٹارنی جنرل نے بھارت کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے یاد دہانی کروائی کہ ان کے اپنے ہاتھ کتنے گندے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افضل گرو جنہیں وکیل دینے سے انکار کیا گیا تھا اور یہاں تک کہ دہشت گرد تنظیم سے تعلق ہونے کے الزامات میں بے قصور قرار دیے جانے کے باوجود انہیں ’معاشرے کے اجتماعی موقف کو مطمئن کرنے کے لیے پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ میں ان سے پوچھتا ہوں کیا آئین اور قانون کے تحت یہ سزا کا معیار ہے؟ کیا یہ بھارت میں عدلیہ کا منصفانہ ٹرائل ہے؟

انہوں نے سمجھوتہ ایکسپریس دہشت گرد حملے سے متعلق بھی بات کی جس میں 42 پاکستانی زندہ جل گئے تھے۔

انور منصور خان نے کہا کہ ’ پاکستان نے حملے کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی درخواست کی ہے لیکن اس حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت ذمہ داران کو بے قصور قرار دینے پر قائم ہے جنہوں نے اس جرم کا اعتراف بھی کیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2002 کے فسادات میں جاں بحق ہونے والے گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کے خاندان آج بھی انصاف کے انتظار میں ہیں۔

انہوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ بھارت پلوامہ حملے میں بغیر کسی ثبوت اور انکوائری کے بغیر ہی ’ جج، جلاد اور نشانہ ‘ بن گیا ہے۔

انور منصور خان نے مقبوضہ کشمیر میں متاثرین کی تعداد بتائے بغیر بھارت کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کا حوالہ بھی دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر دنیا بھر میں تنقید کی جاتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھارتی فورسز کی جانب سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں معصوم شہریوں پر پیلیٹ گنز کے استعمال سے متعلق بتایا کہ جہاں 2 سو زائد معصوم شہری جاں بحق، 15 ہزار سے زائد زخمی ہوئے،15 ہزار سے زائد لاپتہ ہیں اور 2 ہزار سے زائد معصوم مرد، خواتین اور بچے پیلیٹ گن کے استعمال سے عمر بھر کے لیے بصارت سے محروم ہوگئے، جن میں 18 ماہ کی بچی ہبہ بھی شامل ہے جو زندگی بھر دیکھ نہیں سکے گی‘۔

عالمی عدالت نے علاقائی دائرہ کار کے تحت اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا جسے آئندہ 6 ماہ میں کسی وقت سنائے جانے کا امکان ہے۔

واضح رہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق کیس کی سماعت ہیگ میں قائم 15 ججوں پر مشتمل عالمی عدالت انصاف میں 18 سے 21 فروری تک کی گئی، اس موقع پر اٹارنی جنرل انور منصور پاکستانی وفد کی قیادت جبکہ ڈائریکٹر جنرل ساؤتھ ایشیا ڈاکٹر محمد فیصل دفتر خارجہ کی نمائندگی کی۔

کلبھوشن یادیو

یاد رہے کہ ’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ انہیں ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔

ویڈیو میں کلبھوشن نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔

بعدازاں اپریل 2017 کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے کلبھوشن یادیو کو پاکستان کی جاسوسی، کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت سنانے کا اعلان کیا گیا تھا، جس کی توثیق 10 اپریل کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی۔

بھارت نے 9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی پھانسی کے خلاف اپیل دائر کی تھی، اور درخواست کی تھی کہ آئی سی جے پاکستان کو بھارتی جاسوس کو پھانسی دینے سے روکے۔

عالمی عدالت انصاف میں کی گئی درخواست میں بھارت نے پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیاتھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔

بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو ایک بے قصور تاجر ہے جسے ایران سے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کروایا گیا لیکن بھارت اغوا کیے جانے کے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کرسکا تھا۔

خیال رہے کہ 13 دسمبر 2017 کو کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارت کی شکایت پر پاکستان کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں جوابی یاد داشت جمع کرائی گئی تھی۔

جس کے بعد گزشتہ برس 18 مئی کو عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد دفتر خارجہ نے آگاہ کیا تھا کہ آئی سی جے کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے متعلقہ اداروں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

مزید پڑھیں: کلبھوشن کیس: پاکستان نے عالمی عدالت میں تحریری جواب جمع کرا دیا

واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے کیے گئے دعووں پر اب تک پاکستان اور بھارت کی جانب سے 2،2 جوابات داخل کروائے جاچکے ہیں ۔

تاہم بھارت یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا کہ کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ سے کب اور کس طرح ریٹائر ہوا، کیونکہ پکڑے جانے کے وقت کلبھوشن کی عمر 47 برس تھی۔

علاوہ ازیں بھارت کو اس بات کی وضاحت دینے کی ضرورت ہے کہ کلبھوشن یادیو کے پاس جعلی شناخت کے ساتھ اصلی پاسپورٹ کیسے آیا، جس کو اس نے 17 مرتبہ بھارت آنے جانے کے لیے استعمال بھی کیا اور اس میں اس کا نام حسین مبارک پٹیل درج تھا۔

یاد رہے کہ دسمبر 2017 میں پاکستان نے کلبھوشن کے لیے ان کی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات کے انتطامات کیے تھے۔

یہ ملاقات پاکستان کے دفترِ خارجہ میں ہوئی جہاں کسی بھی بھارتی سفیر یا اہلکار کو کلبھوشن کے اہلِ خانہ کے ساتھ آنے کی اجازت نہیں تھی۔

مذکورہ ملاقات کے دوران کلبھوشن یادیو نے اپنی اہلیہ اور والدہ کے سامنے بھی بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے لیے جاسوسی کا اعتراف کیا تھا، جسے سن کر دونوں خواتین پریشان ہوگئی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں