اردو شاعری کا محبوب ہو، جلسے میں آنے والا رہنما یا سرکاری ملازم، کبھی دیے گئے وقت پر نہیں آتے۔ ہمارے شاعروں کے روایتی محبوب کا تو خیر کہنا ہی کیا۔ اس کا تو یہ حال ہے کہ

آنے میں سدا دیر لگاتے ہی رہے تم

جاتے رہے ہم جان سے آتے ہی رہے تم

کبھی کبھی تو محبوب کے آنے کے وعدے پر ساری رات شب انتظار بن کر گزرتی ہے۔ صبح اخبار والا آجاتا ہے، دودھ والا آجاتا ہے، کوڑا اٹھانے والا آجاتا ہے، مگر محبوب نہیں آتا۔ ہمیں نہیں پتہ کہ جاپان کا محبوب بھی وقت اور وعدے کے معاملے میں ایسا ہی ہے، مگر جاپانی عوام و خواص بہرحال وقت کے پابند ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جاپان کے وزیرِ اولمپکس یوشی تاکا ساکورادا نے ایک پارلیمانی اجلاس میں صرف 3 منٹ تاخیر سے پہنچنے پر معافی مانگ لی، مگر حزبِ اختلاف نے ان کی معذرت قبول نہیں کی اور 3 منٹ کی تاخیر پر 5 گھنٹے تک احتجاج کیا۔ حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ وزیر موصوف کے دیر سے آنے سے پارلیمان کا وقار مجروح ہوا ہے۔

کوئی جاپانی حزبِ اختلاف کو سمجھائے کہ 3 منٹ کی تاخیر بھی کوئی تاخیر ہوئی؟ 3 منٹ تو ’یوشی تاکا ساکورادا‘ صاحب کو اپنا نام لیتے ہوئے لگ جاتے ہوں گے۔ یوشی صاحب پر تنقید کرنے والے کبھی پاکستان آئیں تو ان کو پتہ چلے کہ دیر سے آنے کا مطلب کیا ہے۔ یہاں لوگ وقت کو بھی قانون سمجھتے ہیں، اس لیے جتنا ممکن ہو اس کی پابندی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہاں دیے گئے وقت کی خلاف ورزی پابندی سے کی جاتی ہے۔ اگر کسی نے آپ کو صبح 11 بجے ملنے کا ٹائم دیا ہے تو آپ کو یقین ہوگا کہ وہ 12 سے پہلے نہیں آئے گا اور اس یقین کے سہارے وہ کم از کم ایک بجے آئے گا۔

شادی کارڈ پر لکھا گیا وقت اس وعدے کی طرح ہوتا ہے جس کے بارے میں منیر نیازی نے کہا تھا، ’جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں‘۔ مہمان کو پتہ ہوتا ہے کہ اگر وہ کارڈ پر درج وقت کے مطابق پہنچ گیا تو اسے خالی ہال میں میزبان کا استقبال کرنا ہوگا اور پھر کئی گھنٹے بیٹھے رہنا ہوگا ’تصورِ کھانا‘ کیے ہوئے۔ دوسری طرف میزبان بھی جانتا ہے کہ شادی سمیت کسی بھی تقریب کے لیے دیا گیا وقت ایسا وعدہ اور ارادہ ہوتا ہے جس سے پھرنا یوٹرن کے زمرے میں بھی نہیں آتا۔

وقت کے معاملے میں ہماری جیسی فراخ دل قوم شاید ہی کوئی ہو۔ ہمارے ہاں کا ’منٹ‘ شب فراق، شیطان کی آنت، آمرانہ حکومت، محبوب کی زلفوں اور بھارتی ٹی وی ڈراموں سے بھی طویل ہوسکتا ہے، چنانچہ ’بس 5 منٹ میں آیا‘، ’آپ سے 2 منٹ بات کرنی ہے‘، ’یہ کام بس 10 منٹ میں ہوجائے گا‘ جیسے جملوں میں استعمال کیے گئے منٹ دنیا بھر میں عام استعمال ہونے والی گھڑیوں سے تعلق نہیں رکھتے، بلکہ یہ ہم پاکستانیوں کے دماغوں میں فِٹ خاص پاکستانی گھڑی کے ہوتے ہیں، جس میں منٹ کی سوئی حسبِ ضرورت ہندسوں کو دھکیلتے ہوئے آگے چلتی ہے، یوں اس پاکستانی منٹ کا معاملہ یہ ہے کہ

ازل اس کے پیچھے، ابد سامنے

نہ حد اس کے پیچھے، نہ حد سامنے

یعنی کُل ملا کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وقت کی بابت ہمارا طرزِ عمل بے یقینی پر مبنی ہے۔ ہم تقریب سے لے کر تقریر تک اور رسومات سے لے کر انتخابات تک ہر تاریخ اور وقت کے بارے میں غیر یقینی کیفیت اور شکوک و شبہات کا شکار رہتے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ ہمارے شاعر غالب ایک جگہ کہتے ہیں

موت کا ایک دن مُعیّن ہے

اور کہیں شکوہ کرتے نظر آتے ہیں

مرتا کوئی دن اور

ہمارے ہاں وقت کی اپنی ہی تقسیم ہے، جو اس طرح ہے بعد از وقت، قبل از وقت اور بے وقت۔ ہمارے اکثر کام بعد از وقت ہوتے ہیں، جیسے گلی کی بانو کی منگنی کے لڈو کھا کر یاد آتا ہے ’ارے ہمیں تو اس سے محبت تھی‘۔ پھر بعد از وقت واویلے کا سلسلہ ’بانو‘ کی رخصتی تک جاری رہتا ہے۔

قبل از وقت دانشوروں سے آپ کو سوشل میڈیا پر روز ہی واسطہ پڑتا ہوگا، یہ دراصل آپ کا بُرا وقت ہوتا ہے۔ یہ وہ خواتین حضرات ہیں جو چاہے زیرِ تعلیم ہوں مگر خود کو بلاتکلف بطور علامہ اور دانشور پیش کردیتے ہیں۔ یہ مذہب، فلسفہ، معیشت، عالمی سیاست، دفاع سمیت ہر موضوع پر صرف رائے ہی نہیں دیتے بلکہ فتوے بھی دیتے ہیں اور پورے یقین کے ساتھ سمجھتے ہیں ’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘۔

یوں تو ’وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘ مگر ہمارے یہ ’قبل از وقت دانشور‘ وہ حادثے ہیں جنہیں دانشور ہونے کی اتنی جلدی تھی کہ ان کی پرورش کا موقع وقت کو ملا نہ والدین کو، چنانچہ یہ ایک دَم ہوئے اور اب سب کی ناک میں دَم کر رکھا ہے۔ انہیں دیکھتے ہوئے ہماری دعا ہے کہ خدا ’قبل از وقت‘ جیسا وقت دشمن پر بھی نہ لائے۔

تبصرے (0) بند ہیں