برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے 'بریگزٹ' معاہدہ ایک بار پھر مسترد کردیا

13 مارچ 2019
معاہدے کے مسترد ہونے کے بعد ملک میں معاشی افراتفری کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں — فوٹو: اے ایف پی
معاہدے کے مسترد ہونے کے بعد ملک میں معاشی افراتفری کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں — فوٹو: اے ایف پی

لندن: برطانیہ نے پارلیمنٹ میں وزیر اعظم تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کو ایک بار پھر کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق برطانوی دارالعوام میں نظر ثانی شدہ بریگزٹ معاہدے کے حق میں 242 ووٹ، جبکہ مخالفت میں 391 ووٹ ڈالے گئے۔

یوں حکومت کی جانب سے پیش کردی بریگزٹ معاہدے کو 149 ووٹوں سے شکست ہوئی۔

معاہدے کے مسترد ہونے کے بعد ملک میں معاشی افراتفری کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں کیونکہ برطانیہ کو 29 مارچ کو 46 سال بعد اپنے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار سے ہر حال میں علیحدگی اختیار کرنی ہے۔

تھریسا مے نے ارکان پارلیمنٹ سے درخواست کی تھی کہ وہ معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد 'معاشی جھٹکے' سے بچیں۔

معاہدے میں اہم قانونی تبدیلیاں

تھریسا مے نے یورپی کمیشن کے صدر جین کلاڈ جنکر سے ملاقات کی — فوٹو: اے ایف پی
تھریسا مے نے یورپی کمیشن کے صدر جین کلاڈ جنکر سے ملاقات کی — فوٹو: اے ایف پی

قبل ازیں ووٹنگ سے چند گھنٹے قبل برطانوی وزیر اعظم نے یورپی یونین سے آخری لمحات میں مذاکرات کر کے معاہدے کے مسودے میں چند قانونی تبدیلیاں کی تھیں۔

اس طرح معاملے پر اہم پیشرفت کرتے ہوئے یورپی یونین سے معاہدے میـں نمایاں تبدیلی کرتے ہوئے بریگزٹ کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ کو دور کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: بریگزٹ معاہدے پر ووٹ سے قبل برطانوی وزیر نے ’پلان بی‘ پیش کردیا

تھریسامے نے ووٹنگ سے قبل فرانس کا سفر کیا اور یورپی کمیشن کے صدر جین کلاڈ جنکر سے ملاقات کر کے معاہدے میں اہم تبدیلیاں کیں اور بعد ازاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنی کامیابی کا اعلان کیا۔

585 صفحات کا بریگزٹ معاہدہ اپنی جگہ موجود ہے لیکن آئرلینڈ سے سرحد کے حوالے سے معاہدے میں کچھ اہم تبدیلیاں کی گئی تھیں، جس کے بعد تھریسامے کو امید تھی کہ اب تک جنوری میں سامنے آنے والے نتائج کے برعکس وہ پارلیمنٹ میں اراکین کو قائل کر سکیں گی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ تبدیلیوں کا مقصد یہ ہے کہ آئرش backstop یعنی آئرلینڈ کے ساتھ ایک سخت سرحد نہ بنانے کی پالیسی بنائی جائے، مگر یہ طے ہے کہ یہ پالیسی مستقل نہیں ہو سکے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے وہی کیا جو پارلیمنٹ نے مجھ سے کہا تھا اور اب وقت ہے کہ ہم سب مل کر اس نئے معاہدے کی حمایت کریں۔

یہ بھی پڑھیں: بریگزٹ کیا ہے؟ اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

یورپی یونین کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ سیاست میں کبھی کبھار ہمیں دوسرا موقع ملتا ہے، یہ بھی ایک دوسرا موقع ہے لیکن ساتھ ساتھ اراکین پارلیمنٹ کو خبردار کیا کہ تیسرا موقع نہیں ملے گا۔

یاد رہے کہ جب آخری مرتبہ جنوری میں تھریسامے کے دستبرداری کے معاہدے کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا تو اسے 230 ووٹ کے تاریخی مارجن سے مسترد کردیا گیا تھا۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر تھریسامے اپنی اس شکست کو کامیابی میں تبدیل کرلیتی ہیں تو یہ ان کی بڑی کامیابی ہو گی۔

تھریسا مے یورپی یونین سے کئی ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد ہونے والے معاہدے پر قائم ہیں، جو یورپی یونین سے علیحدگی کا واحد حل تصور کیا جاتا ہے، جس کے لیے انہوں نے اپنے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ یورپی یونین سے کیے گئے معاہدے کو مسترد کیے جانے کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے، جن کے تحت برطانیہ یورپی یونین سے ’کسی معاہدے کے بغیر‘ علیحدہ ہوگا یا پھر بریگزٹ ہی نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں: بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ، برطانوی وزیر اعظم کو بدترین شکست

ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر برطانوی حکومت رواں ماہ بریگزٹ میں ناکام رہتی ہے تو وہ شاید اقتدار میں نہ رہ سکے کیونکہ اب اس معاملے کو مزید طول دینا آسان نہیں۔

بریگزٹ معاہدہ

واضح رہے کہ 2016 میں برطانیہ میں ہونے والے حیرت انگیز ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دیا تھا جس پر عملدرآمد اب سے چند ہفتوں بعد ہو گا۔

جولائی 2016 میں وزیر اعظم بننے والی تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ اخراج کے معاہدے کو قبول کرلیں۔

یہ بھی پڑھیں: بریگزٹ کا عمل 29 مارچ سے شروع ہوگا

اس معاہدے پر ووٹنگ گزشتہ سال دسمبر میں ہونا تھی لیکن بعد ازاں اسے جنوری تک کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔

مارچ 2017 میں برسلز میں شروع ہونے والے سخت مذاکرات کے نتیجے میں معاہدے کے مسودے پر اتفاق کیا گیا تھا جبکہ یورپی رہنماؤں نے دوبارہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کردیا تھا اور اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے برطانوی معیشت میں مستقل اضطراب پایا جاتا ہے۔

چند دن قبل ہی بریگزٹ کے حوالے سے تازہ ووٹنگ میں تھریسامے کے خلاف 308 ووٹ سے ترمیم پاس کی گئی جس میں حکمراں جماعت کے درجنوں اراکین بھی شامل تھے جبکہ 297 اراکین نے وزیراعظم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے اراکین نے بھی لیبرپارٹی کا ساتھ دیا جس کے بعد 29 مارچ کو یورپی یونین سے مکمل علیحدگی کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔

تاہم تھریسامے کو سب سے بڑی ناکامی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب 16 جنوری کو برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے علیحدگی کے وزیر اعظم تھریسامے کے بل کو واضح اکثریت سے مسترد کردیا اور انہیں 202 کے مقابلے میں 432 ووٹ سے شکست ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔

مزید پڑھیں: برطانوی ملکہ الزبتھ دوئم نے بریگزٹ بل کی توثیق کردی

یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتداء میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہوسکے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں