وفاقی و صوبائی حکومتوں سے موبائل کمپنیوں کے ٹیکس کی تفصیلات طلب

اپ ڈیٹ 27 مارچ 2019
ریڑھی والا, نان والا, پلمبر اور نائی موبائل ٹیکس کیوں دیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن — فائل فوٹو
ریڑھی والا, نان والا, پلمبر اور نائی موبائل ٹیکس کیوں دیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن — فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے گزشتہ ایک برس میں موبائل فون کمپنیوں سے وصول کیے گیے ٹیکس کی تفصیلات طلب کرلیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے دو رکنی بینچ نے موبائل فون کمپنیوں کے اضافی ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا یہ موبائل فون ٹیکس کا معاملہ آرٹیکل 184 (3) میں آتا ہے؟ جس پر عدالت میں موجود اٹارنی جنرل انور منصور نے موبائل کارڈ ٹیکس پر عدالت کی کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ بنیادی حقوق اور مفاد عامہ کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔

عدالت نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مطابق موبائل ٹیکسسز کا معاملہ آرٹیکل 184 (3) میں نہیں آتا، لیکن مذکورہ کیس آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے دائرہ کار میں آتا ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا موبائل کارڈز پر ٹیکس معطل کرنے کا حکم

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کا بنیادی کام کیا ہے؟ملک چلانے کے لیے رقم کی ضرورت ہوتی ہے، کیا پارلیمنٹ کا کام صرف ٹیکس اکٹھے کرنا ہے؟

دوران سماعت عدالت میں موجود پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ موبائل پر ٹیکس معطل ہونے کی وجہ سے صوبائی حکومت 80 ارب روپے کا ریونیو وصول نہیں کرسکی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ’ٹیکس وصولی کے قوانین معطل کیے بغیر ٹیکس وصولی کیسے معطل کی جاسکتی ہے‘۔

عدالت نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ جن قوانین کے تحت ٹیکس وصول کیا گیا ان کی تفصیل جمع کرائی جائے۔

بینچ کے دوسرے جج جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ حکومت کیسے طے کرتی ہے کہ کون ٹیکس ادا کرے گا کون نہیں؟

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ’ریڑھی والا، نان والا، پلمبر اور نائی موبائل ٹیکس کیوں دیں؟‘۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ موبائل سروسز ٹیکس وہ ادا کرے گا جو دہندہ ہوگا، جو شخص مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتا وہ ودہولڈنگ ٹیکس کیوں ادا کرے۔

دورانِ سماعت عدالت میں موجود موبائل سروس کمپنی کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق موبائل فونز پر عائد 10 فیصد چارجز ختم کر دیئے گئے تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا 10 فیصد سروس چارجز ختم کرنے پہ کوئی اعتراض ہے؟

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا موبائل کارڈ پر ٹیکسز کی بحالی کا فارمولا پیش کرنے کا فیصلہ

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ٹیکس معطل کرنے کا فیصلہ 3 ممبر بینچ نے دیا تھا، لہٰذا مناسب ہوگا یہ کیس تین رکنی بینچ سنے۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تین رکنی بینچ کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا۔

خیال رہے کہ رواں برس فروری میں حکومت کی جانب سے ریونیو شارٹ فال اور بجٹ کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے کوئی نئے ٹیکس کے نفاذ کے بجائے موبائل فون کارڈ پر ٹیکسز کی بحالی کے لیے ایک متبادل فارمولا سپریم کورٹ میں پیش کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر کا کہنا تھا کہ 'بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکج کے حصول کے لیے پیشگی شرائط کے طور پر ریونیو ہدف حاصل کرنے کے لیے رواں مالی سال میں کوئی نیا ٹیکس نافذ نہیں کریں گے'۔

حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ٹیلی کام سروسز پر ٹیکسز میں نظرثانی کرنے کے لیے ایک نیا فارمولا پیش کرنے کے علاوہ آمدنی میں اضافے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جائیں گے کیونکہ عدالت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا پہلا والا فارمولا مسترد کردیا تھا۔

خیال رہے کہ جون 2018 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے موبائل کمپنیوں کی جانب سے پری پیڈ کارڈ کے ری چارچ پر لیے جانے والے ٹیکسز کو معطل کردیا تھا جبکہ صرف اسی سے سالانہ 80 ارب روپے کی آمدنی حاصل ہوری تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں