تھریسا مے کی یورپی یونین سے بریگزٹ میں 30 جون تک تاخیر کی درخواست

اپ ڈیٹ 05 اپريل 2019
بریگزٹ کی موجودہ تاریخ 12 اپریل ہے— فوٹو: اے ایف پی
بریگزٹ کی موجودہ تاریخ 12 اپریل ہے— فوٹو: اے ایف پی

برطانیہ کی وزیراعظم تھریسا مے نے یورپی یونین سے درخواست کی ہے کہ بریگزٹ میں تاخیر کو بڑھا کر 30 جون کردیا جائے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 29 مارچ کو برطانوی پارلیمنٹ کی جانب سے مسلسل تیسری مرتبہ یورپی یونین کے رہنماؤں سے کیا گیا معاہدہ مسترد کرنے کے بعد بریگزٹ کی موجودہ تاریخ 12 اپریل ہے۔

تھریسا مے نے یورپی یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کو کی گئی باقاعدہ درخواست میں کہا کہ برطانیہ چاہتا ہے کہ بریگزٹ میں تاخیر کی مدت 30 جون 2019 کو ختم ہو۔

گزشتہ ماہ یورپی یونین میں ہونے والے اجلاس میں بھی انہوں نے یہی مہلت مانگی تھی۔

مزید پڑھیں: برطانوی پارلیمنٹ نے 'بریگزٹ' معاہدہ تیسری مرتبہ مسترد کردیا

تھریسا مے کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ برطانیہ 23 مئی کو شروع ہونے والے انتخاب تک بلاک کا حصہ رہا تو وہ یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات کی تیاری کرے گا۔

برطانوی وزیر اعظم کے خط میں معاہدے کے ساتھ علیحدگی کو ’بہترین نتیجہ‘ قرار دیا گیا۔

موجودہ صورتحال میں تھریسا مے برسلز اجلاس سے قبل تجاویز منظور کروانے کی کوشش کررہی ہیں تاکہ برطانیہ، یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں حصہ نہ لے سکے۔

برطانوی شہری یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند نہیں کیونکہ انہوں نے 2016 میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے یونین سے علیحد گی کے لیے ووٹ دیا تھا۔

تاہم مہلت میں تاخیر کے لیے یورپی یونین کے دیگر 27 ممالک کی متفقہ حمایت ہونی چاہیے۔

برطانوی وزیراعظم نے ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ سے جاری کیے گئے خط میں لکھا کہ ’اگر فریقین اس تاریخ سے قبل توثیق کرنے میں کامیاب رہے تو حکومت تجویز دیتی ہے کہ اس دورانیے کو قبل از وقت ختم کردیا جائے‘۔

یہ بھی پڑھیں: تھریسا مے ایک مرتبہ پھر بریگزٹ میں ’مختصر تاخیر‘ کی خواہاں

اس سے قبل یورپی یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے برطانیہ کو بریگزٹ کے لیے 12 ماہ کی توسیع دیئے جانے کی تجویز دی تھی۔

یورپی یونین کے سینئر عہدیدار نے کہا کہ ڈونلڈ ٹسک کی جانب سے برطانیہ کو 12 ماہ کی دینے کی تجویز کو آج رکن ممالک کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون کہہ چکے ہیں کہ وہ بریگزٹ میں تاخیر کی واضح وجہ جاننا چاہتے ہیں۔

ایمانوئیل میکرون کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ایک اور تاخیر پر غور کرنا ’قبل از وقت‘ ہے۔

برطانوی حکومت کی ٹیم، اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے رہنماؤں سے مذاکرات کررہی ہے تاکہ سیاسی ڈیڈلاک کا حل نکالا جاسکے تاہم مذاکرات اب تک ناکام رہے ہیں۔

بریگزٹ معاہدہ

واضح رہے کہ 2016 میں برطانیہ میں ہونے والے حیرت انگیز ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دیا تھا جس پر عملدرآمد اب سے چند ہفتوں بعد ہو گا۔

جولائی 2016 میں وزیر اعظم بننے والی تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ اخراج کے معاہدے کو قبول کرلیں۔

اس معاہدے پر ووٹنگ گزشتہ سال دسمبر میں ہونا تھی لیکن بعد ازاں اسے جنوری تک کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: برطانوی ارکان پارلیمنٹ کا بریگزٹ میں تاخیر کا فیصلہ

مارچ 2017 میں برسلز میں شروع ہونے والے سخت مذاکرات کے نتیجے میں معاہدے کے مسودے پر اتفاق کیا گیا تھا جبکہ یورپی رہنماؤں نے دوبارہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کردیا تھا اور اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے برطانوی معیشت میں مستقل اضطراب پایا جاتا ہے۔

بریگزٹ کے حوالے سے کی گئی پہلی ووٹنگ میں تھریسامے کے خلاف 308 ووٹ سے ترمیم پاس کی گئی جس میں حکمراں جماعت کے درجنوں اراکین بھی شامل تھے جبکہ 297 اراکین نے وزیراعظم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے اراکین نے بھی لیبرپارٹی کا ساتھ دیا جس کے بعد 29 مارچ کو یورپی یونین سے مکمل علیحدگی کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔

تاہم تھریسامے کو سب سے بڑی ناکامی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب 16 جنوری کو برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے علیحدگی کے وزیر اعظم تھریسامے کے بل کو واضح اکثریت سے مسترد کردیا اور انہیں 202 کے مقابلے میں 432 ووٹ سے شکست ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: یورپین یونین کی برطانیہ کے بریگزٹ معاہدے کی توثیق

بعدازاں 29 مارچ کو برطانیہ کی پارلیمنٹ میں وزیر اعظم تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کو تیسری مرتبہ کثرت رائے سے مسترد کیا گیا تھا، معاہدے کے حق میں 286 جبکہ مخالفت میں 344 ووٹ دیے گئے تھے۔

تیسری ووٹنگ سے قبل 15 مارچ کو برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے بریگزٹ میں کم از کم 30جون تک کی مہلت طلب کرنے کے لیے رائے شماری کے بعد تاخیرکا فیصلہ کیا تھا۔

یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتداء میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہوسکے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں